بلوچستان میں دہشت گردوں کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر حملے اور سینکڑوں مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد سیکورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سو سے زائد مسافروں کو بازیاب کروالیا۔ حملے کی ذمہ داری بلوچ دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق ٹرین پر 400 سے زائد مسافر سفر کر رہے تھے، جن میں عام شہریوں، خواتین اور بچوں کے علاوہ سرکاری ملازمین، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل تھے، تاہم منگل کی رات کو سو سے زائد مسافروں جن عام شہری، خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے کو بازیاب کروا لیا گیا جبکہ دیگر کی بازیابی کیلئے کلیئرینس آپریشن بدھ کو بھی جاری رہا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی اس تازہ اور خوفناک کارروائی نے قومی سلامتی اور امن عامہ سے متعلق سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا سب سے خوفناک حملہ تھا، جس میں دہشت گردوں نے پوری ٹرین کو یرغمال بنا لیا۔ مسافروں میں سینکڑوں عام شہری، بزرگ، خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جو عید منانے اپنے پیاروں کے پاس جا رہے تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی۔ یہ واقعہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے ریاست کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کی واضح کوشش ہے۔ واقعہ منگل کی دوپہر کو اس وقت پیش آیا جب کوئٹہ سے نکلنے والی جعفر ایکسپریس بولان اور مچھ کے پہاڑی علاقوں میں پہنچی۔ دہشت گردوں نے اچانک سامنے آکر پہلے ایک دھماکا کردیا۔ اس کے بعد ٹرین کو ڈی ریل کرکے اسے مسافروں سمیت یرغمال بنالیا۔ کارروائی کے دوران دہشت گردوں نے معصوم شہریوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں کوانسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا، تاکہ اپنے ناپاک عزائم پر آسانی سے عمل درآمد کرسکیں۔ واقعے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح لمحوں میں پورے ملک میں پھیل گئی اور ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول قائم ہوگیا۔ پوری قوم سانس کھینچے سینکڑوں مسافروں کی بحفاظت بازیابی اور دہشت گردوں کے خاتمے کی دعائیں مانگنے لگی۔ ان سطور کی تحریر تک مسافروں کی بڑی تعداد بحفاظت بازیاب ہوگئی ہے، تاہم بہت سے مسافروں کے بارے میں یہ اطلاع ہے کہ دہشت گرد انہیں شناخت کرکے اپنے ہمراہ لئے پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے ہیں، جو انتہائی تشویش کی بات اور حکومت و انتظامیہ کیلئے چیلنجنگ صورت حال ہے۔
یہ حملہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک کڑی ہے، جو قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس دہشت ناک واقعے کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے فوری رسپانس دیتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا ،تاہم دہشت گرد مسافروں کو فرنٹ پر رکھ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے، جس کے باعث اس صورتحال سے کامیابی کے ساتھ نمٹنا، مسافروں کی بحفاظت بازیابی کو یقینی بنانا اور دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانا ایک پیچیدہ اور مشکل ترین معاملہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ فورسز کو کھل کر بڑی کارروائی کرنے میں مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے پیشہ ورانہ مہارت بروئے کار لاتے ہوئے انتہائی احتیاط کے ساتھ جوابی کارروائی شروع کی۔ گھنٹوں پر محیط اس کارروائی میں فورسز کو سولہ سے زائد دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے اور سو سے زائد مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی، جو قابل تحسین ہے، تاہم دہشت گردوں کے اس قدر منظم اور خطرناک حملے نے ملک کے سیکورٹی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ دہشت گرد جہاں اور جس طرح چاہیں آزادی سے کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس واقعے سے سبق سیکھ کر غلطیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ نہ دی گئی تو ریلوے کا سفر مکمل غیر محفوظ ہوکر رہ جائے گا اور ٹرینیں مکمل طور پر بند کرنا پڑیں گی، جو بڑی ناکامی اور دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر کرنے کے مترادف ہوگا۔پاکستان میں کسی کو اس بات پر شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے پاکستان دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے مگر ظاہر ہے کہ اس بارے میں صرف جاننا کافی نہیں ہے،دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانا بھی ضروری ہے۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں دہشت گردی اور بے امنی کیخلاف جامع حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ دشمن طاقتیں پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اب ان کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ ٹرینیں اغوا اور یرغمال بنانے جیسی بڑی اور سنگین کارروائیاں بھی انجام دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ حالات بڑی تیزی سے پیچیدہ شکل اختیار کررہے ہیں اور بتدریج پانی سر سے اونچا ہونے جا رہا ہے۔شیخ سعدی ایسی ہی صورتحال کے متعلق فرماتے ہیں کہ’سرِ چشمہ شاید گرفتن بہ میل۔چو پُر شد نشاید گزشتن بہ پیل۔ یعنی نہر کا شگاف ابتدا میں کسی سوے جیسے چھوٹے آلے سے بھی پاٹا جاسکتا ہے، مگر کھل جائے اور پانی دریا بن جائے تو پھر ہاتھی پر سوار ہوکر اسے پار کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل کہ شگاف دریا میں تبدیل ہوجائے ارباب اختیار اور اہل اقتدار کو باہم سر جوڑ کر اس سنگین تر ہوتے مسئلے کا تدارک اور حل ڈھونڈنا ہوگا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ اس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔ سیاسی قیادت کو ساری ذمے داریاں فورسز پر ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھنا چاہیے۔ حالات نے ملک و قوم کو اس موڑ پر پہنچا دیا ہے کہ بقا کیلئے اب قوم کے ہر فرد، ہر طبقے، ملک کے ہر شعبے اور ہر ادارے کو احساس ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور باہم اتحاد سے اس سنگین صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ اس نازک مرحلے میں بھی قوم بری طرح منتشر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی اور باہم عدم برداشت کی فضا ہے۔ ان حالات میں امن و استحکام کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ اس وقت پاکستان کو قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ بیانیہ تشکیل دینا ہوگا اور ساتھ ہی ایک کمیشن بنا کر ان تمام اسباب کا جائزہ لینا ہوگا جو ملک میں انتشار، فساد اور بے امنی کے فروغ کا باعث ہیں اور پھر سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ انتشار کے اسباب کو دور کرنا ہوگا۔