سوال یہ نہیں ہے کہ مصر کا پیش کردہ غزہ کا تعمیرِ نو منصوبہ کتنا اچھا یا برا ہے اور اس کی حمایت میں کتنے عرب ممالک کتنے اسلامی ملک اور کتنے عالمی ملک کھڑے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ کتنا قابلِ عمل ہے۔ جس منصوبے کو دو اصل فریقوں یعنی حماس اور اسرائیل نے مسترد کردیا ہو یا پوری طرح قبول نہ کیا ہو باقی ساری دنیا مل کر بھی اس پر کیسے عمل کرے گی؟ اور اسی کا ضمنی سوال یہ ہے کہ جس منصوبے کو اسرائیل کے پشت پر کھڑے امریکا نے بھی رد کردیا ہو اس پر بات آگے کیسے چلے گی؟ یہ ہے اصل سوال۔
لیکن اس معاملے میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک تو عرب ممالک کا اکٹھے ہو کر امریکی بلکہ ٹرمپ منصوبے کی مخالفت کرنا، دوسرے بڑے یورپی ملکوں کا ٹرمپ کی تجویز کو رد کر کے مصر منصوبے کی حمایت میں کھڑے ہونا۔ یہ دو وسیع ہوتی دراڑیں براعظموں کو الگ کرنے والی فالٹ لائنز کی طرح سامنے آ گئی ہیں اور اگر امریکی اتحادی اس سے الگ ہوتے چلے گئے تو یہ زمین پھٹ کر الگ الگ ہو جائے گی اور درمیان کی خلیج نئے اتحادیوں نئی صف بندیوں اور نئی کشمکش کا آغاز کرے گی۔ آج کل روز مصر کے تجویز کردہ غزہ تعمیر نو منصوبے پر مختلف ملکوں کے موقف سامنے آرہے ہیں۔ تازہ ترین موقف اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اعلامیہ ہے جس میں عرب پلان کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے کے ساتھ فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ بیان ہے جس میں انہوں نے مصر منصوبے کو حقیقت پسندانہ اور اور غزہ بحالی کے لیے مناسب قرار دیا ہے۔ اس سے کچھ دن پہلے عرب لیگ کانفرنس میں بھی اس منصوبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔ سو اس موقف پر مسلم ممالک اور یورپی ممالک ہم آواز ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل اور امریکا کھڑے ہیں اور تیسری طرف حماس تنہا کھڑی ہے۔
ذرا ایک نظر اس عرب پلان پر ڈال لیتے ہیں کہ یہ ہے کیا۔ اس کے پس منظر میں یہ ذہن میں رکھیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ان فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرکے ملحقہ ممالک مصر اور اُردن وغیرہ میں آباد کیا جائے گا اور غزہ میں تعمیر نو کا کام کرکے اسے امریکی ملکیت کا ’غزہ ریویرا ‘بنایا جائے گا۔ ریویرا ساحلی تفریحی مقام کو کہتے ہیں۔ چونکہ غزہ کی 42کلو میٹر کی پٹی بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ ہے تو ٹرمپ کا کاروباری ذہن اس کو ایک منافع بخش مقام کا روپ دینے کے بارے میں سوچتا ہے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کو عالمی طور پر فوراً ہی رد کر دیا گیا۔ خود اسرائیل نے بھی اس کی کھل کر حمایت نہیں کی کیونکہ اس میں اس کا فائدہ صرف فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا تھا۔ باقی معاملات میں اس کا فائدہ نہیں تھا۔ حماس اور فلسطینیوں نے بھی اسے رد کر دیا اور عرب ممالک نے بھی۔ 4مارچ کو قاہرہ کی عرب لیگ سربراہی کانفرنس میں عرب پلان کے نام سے مصر نے 53 ارب ڈالر سے بحالی اور تعمیر نو کا ایک متبادل منصوبہ پیش کیا جو تین بنیادی مرحلوں اور اقدامات کے گرد گھومتا ہے۔
یہ مرحلے عبوری انتظامی اقدامات، تعمیر نو اور حکومتی یا انتظامی نظم و نسق ہیں۔ پہلا مرحلہ چھ ماہ پر مشتمل ہوگا اور بعد کے دونوں مراحل چار سے پانچ سال کی مدت پر محیط ہوں گے۔ پہلے مرحلے یعنی عبوری اقدامات کے لیے فلسطینی ٹیکنو کریٹس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جانے کی تجویز ہے اور یہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام رہے گی۔ فلسطینی اتھارٹی دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی نظم و نسق ہے، جس کا گزشتہ 17سال سے غزہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ غزہ سے حماس نے اسے بے دخل کر دیا تھا۔ اسی پہلے مرحلے میں کام پورے غزہ میں ملبے کی صفائی، باردوی سرنگوں، بموں اور دیگر اسلحے کی صفائی سے شروع ہو گا۔ غزہ میں شمال سے جنوب تک کی سب سے بڑی شاہراہ صلاح الدین کو فعال کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کے لیے دو لاکھ عارضی گھر بنائے جائیں گے جن میں 12لاکھ فلسطینیوں کی رہائش ہو گی۔ 60ہزار عمارتوں کی مرمت اور بحالی کا کام کیا جائے گا۔ یہ عمل چھ ماہ میں تین ارب ڈالر کے خرچ سے پورا کیا جائے گا۔
اس کے بعد دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گا جس میں ملبے کی منتقلی کا کام جاری رہے گا۔ چار لاکھ گھروں کی تعمیر کی جائے گی۔ تمام آبادی کے لیے 30مہینوں میں گھر بنیں گے۔ پانی، سیوریج،بجلی اور مواصلاتی نظام بحال کیا جائے گا۔ ائیرپورٹ، تجارتی بندرگاہ، ماہی گیروں کی بندرگاہ اور صنعتی زون بنائے جائیں گے۔ یہ مرحلہ 20ارب ڈالر کی لاگت سے پورا ہو گا۔ تیسرے مرحلے میں آئندہ کے لیے حکومتی نظم و نسق بنایا جائے گا۔ ٹیکنوکریٹس کی کمیٹی انسانی امداد اور نظم و نسق کا بندوبست سنبھالے گی اور ممکنہ طور پر انتخابات کرائے جا سکیں گے۔ یہ مرحلہ 30ارب ڈالر کی لاگت سے پورا ہو گا۔
اس تمام کام کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ اقوام متحدہ سمیت دیگر بڑے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فنڈز کی درخواست کی جائے گی۔ نیز بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کی جائیں گی جن میں عالمی عطیہ کنندگان کو متوجہ کیا جائے گا۔اس رقم سے تعمیر نو اور بندوبست کے کام کیے جائیں گے۔ سکیورٹی کے لیے مصر اور اُردن غزہ سے پولیس افسر بھرتی کرکے انہیں ٹریننگ دیں گے اور بعد میں انہیں غزہ میں تعینات کیا جائے گا۔ مصر اور اُردن نے ہی سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ اس تعمیر نو کے درمیان امن قائم رکھنے کے لیے امن مشن فوج تعینات کی جائے۔ آ پ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اسے ایک طرف کر دیا گیا ہے۔ غزہ سے اس کا کنٹرول بھی ختم ہو کر فلسطینی اتھارٹی کو دیے جانے کی تجویز ہے۔ ایک اہم بات اس پورے منصوبے میں کہیں ذکر نہیں کی گئی اور وہ ہے حماس کو غیر مسلح کرنا۔ حماس کا ملا جلا رد عمل آ رہا ہے۔ اس نے تعمیر نو کا خیر مقدم کیا ہے اور بظاہر وہ نظم و نسق سے دست بردار ہونے کے لیے بھی تیار ہو گی، لیکن ممکنہ طور پر وہ خود کو غیر مسلح کرنا تسلیم نہیں کرے گی۔
دوسری طرف اسرائیل نے بھی عرب پلان رد کردیا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ وہ حماس کو مسلح رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں واپس لانے کی بھی مخالفت کی ہے۔ بنیادی طور پر اسرائیل کو اس منصوبے پر کئی طرح کے تحفظات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے خیال میں قریبی ممالک یا ہمسایہ ممالک کو اس خطے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے وہ مصر، اُردن، سعودی عرب اور لبنان وغیرہ کا کردار تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن اس کے ساتھ اس موقف کا تضاد یہ ہے کہ وہ دُوردراز ملکوں مثلاً امریکا اور اپنے حامی یورپی ممالک کے عمل دخل کا حامی ہے۔ دوسرے اسے یہ خطرہ ہے کہ یہ منصوبہ بالآخر دو ریاستی منصوبے پر منتج ہوگا جو عرب ممالک کا بنیادی مطالبہ ہے اور جس کا اسرائیل سخت مخالف ہے۔ امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ’مشرقِ وسطی ریویرا منصوبے‘ پر قائم رہتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ عرب پارٹنرز کو خوش آمدید کہا جائے گا اور حماس کے سوا ہر ایک سے بات چیت ہو سکتی ہے۔
اِس وقت بڑا سوال عرب پلان کے اچھے برے ہونے کا نہیں قابلِ عمل ہونے کا ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے غز ہ میں اب تک پریس کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کی پروا نہیں کی۔ اس لیے یہ فرض کرنا کہ وہ آئندہ یہ طرزِ عمل بدل لے گا خوش گمانی کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل کا منصوبہ گریٹر اسرائیل ہے اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے خود اس پر قابض ہونا۔ اس لیے اسے عرب پلان کسی بھی طرح قبول نہیں ہوسکتا۔ عرب پلان کاغذ پر کتنا ہی خوش نما نظرآتا ہو اس پر عمل کا امکان میرے خیال میں بہت کم ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ امریکا اسرائیل کی پشت پناہی سے مکمل دست بردار ہوجائے۔ کیا اس میں ٹرمپ کو کوئی فائدہ نظر آئے گا؟ ویسے تو ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انحرافی فیصلوں کے لیے مشہور ہیں لیکن کیا وہ اس فیصلے کی طرف جا سکتے ہیں؟
