15مارچ کو یوم تحفظِ ناموسِ رسالت منانے کا فیصلہ

حکومتِ پاکستان نے پندرہ مارچ کو یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت منانے کا اعلان کیا ہے جو انتہائی خوش آئند بات ہے۔ اِس سے قومی سطح پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کے اجتماعی اظہار کا موقع ملے گا اور ہم تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوری و قانونی موقف پر عالمی سطح پر مختلف حلقوں کی منفی سرگرمیوں اور سازشوں کا جائزہ لے کر اپنی جدوجہد کی تجدید کا عزم کر سکیں گے، اِن شاء اللہ تعالیٰ۔ تحفظ ناموس رسالت کے قانون پر عالمی سیکولر قوتوں کے موقف کے بارے میں ماہنامہ نصرت العلوم گوجرانوالہ جولائی 2007ء میں’کیا مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین جرم نہیں ہے؟’ کے عنوان سے شائع ہونے والا مضمون دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، جس سے اس قانون کی مخالفت کے پس منظر کو سمجھا جاسکتا ہے۔

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں 18جون 2007ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکا کے مذہبی آزادی کے بین الاقوامی کمیشن نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بش حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان سے سرگرمی کے ساتھ رجوع کرے اور کمیشن نے اس کے ساتھ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ فعل قرار دے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 کے تحت مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین قانونی طور پر جرم ہے جس میں سزائے موت تک کی مختلف سزائیں مقرر کی گئی ہیں اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون بھی اسی کا حصہ ہے، لیکن اسے ایک عرصہ سے بین الاقوامی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ آزادی رائے اور آزادی مذہب کے اس حق کے منافی ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں دی گئی ہے۔ سلمان رشدی کی بیہودہ تصنیف ”شیطانی آیات” کے خلاف جب دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک میں زبردست عوامی مظاہروں کے ذریعے مسلمانوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا تو مغربی حکومتوں کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سلمان رشدی کے خلاف مسلمانوں کے مظاہرے اور بعض حلقوں کی طرف سے اس کے واجب القتل ہونے کے فتوے آزادی رائے اور آزادی مذہب کے حق کے منافی ہیں۔ اس بنا پر برطانوی حکومت نے سلمان رشدی کو تحفظ فراہم کیا تھا جو اب بھی جاری ہے اور حکومت برطانیہ اس ملعون گستاخ رسول کی حفاظت کے لیے لاکھوں پونڈ سالانہ خرچ کر رہی ہے۔

مگر مسلمانوں نے مغربی حکومتوں کے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا اور ڈنمارک اور ناروے کے اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ کارٹونوں کے خلاف دنیا بھر میں اپنے جذبات کا پُرجوش مظاہرہ کرکے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین اور گستاخی کے معاملے کو آزادی رائے اور آزادیٔ مذہب کے دائرہ کی بات نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک رائے اور مذہب کا اختلاف توہین گستاخی اور طنز و استہزا سے مختلف چیز ہے۔ جبکہ مغرب کی حکومتیں اور دانشور ابھی تک اس بات پر مصر ہیں کہ توہین، استہزا، تمسخر اور تحقیر بھی رائے کے اختلاف کے زمرہ میں شمار ہوتے ہیں، اس لیے جس طرح مسلمان اپنے مذہب اور پیغمبر کے بارے میں رائے اور دلیل کے اختلاف کو برداشت کرتے ہیں اور اس پر جذبات میں نہیں آتے اِسی طرح وہ اپنے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین، استہزا اور تمسخر کو بھی برداشت کریں اور اس پر غصے میں آنے کی بجائے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔

جہاں تک رائے اور دلیل کے اختلاف کا تعلق ہے چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے ہمیشہ برداشت کیا ہے اور دلیل کا جواب دلیل سے دیا ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے مغرب کے مستشرقین اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتے آرہے ہیں، اعتراضات کرتے ہیں اور سینکڑوں باتوں سے اختلاف کرتے ہیں لیکن مسلمان کبھی ان پر سیخ پا نہیں ہوئے بلکہ کتاب کا جواب کتاب سے، مقالہ کا جواب مقالہ سے اور دلیل کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے۔ جس پر مغرب کی بہت سی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں گواہ ہیں۔ البتہ توہین، استہزا، تحقیر اور تمسخر کی بات مختلف ہے۔ دین اسلام، پیغمبر اسلام، قرآن کریم بلکہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے حوالے سے بھی مسلمانوں نے کبھی یہ لہجہ برداشت نہیں کیا اور نہ آئندہ کبھی برداشت ہوسکتا ہے۔

ہم تاریخ کے حوالے سے اس سلسلے میں ایک عام سی مثال دیا کرتے ہیں کہ معروف ہندو مصنف پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ”ستیارتھ پرکاش” میں قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سینکڑوں اعتراضات کیے ہیں جن کے علماء کرام کی طرف سے دلیل کے ساتھ جوابات دیے گئے ہیں۔ خاص طور پر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دلیل اور مکالمہ کے میدان میں پنڈت دیانند سرسوتی کا بالمشافہہ سامنا کرکے اسے میدان سے فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن اسی معاشرہ میں ایک اور ہندو مصنف راج پال نے ”رنگیلا رسول” نامی کتاب لکھ کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ لہجہ اختیار کیا تو اسے برداشت نہیں کیا گیا اور غازی علم دین شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس ملعون گستاخ رسول کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
سلمان رشدی کے حوالے سے جب مختلف ممالک میں اس کے خلاف جلسے اور مظاہرے ہو رہے تھے، برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اسی سلسلہ میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے راقم الحروف نے سلمان رشدی کی مذمت کی تو جلسہ میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ لوگ سلمان رشدی کی کتاب کا جواب کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کیا کہ جواب دلیل کا ہوتا ہے گالی کا نہیں۔ اگر کسی کے باپ کو گالی دی جائے تو وہ جواب میں دلیل نہیں دیا کرتا۔ اس کا جواب وہی ہوتا ہے جس کا اظہار مسلمان کر رہے ہیں۔

ہم رائے کے اختلاف اور توہین و تحقیر کے فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ہم نے ہمیشہ اس کا لحاظ رکھا ہے، لیکن مغرب اس فرق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ سلمان رشدی کو نائٹ ہڈ (سر) کا خطاب دے کر ایک بار پھر مغرب کے اس موقف کا اعادہ کر دیا ہے کہ وہ توہین، تمسخر، استہزا اور تحقیر کو بھی آزادی رائے کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں ان کے نزدیک عام لوگوں اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ امریکا کے مذہبی آزادی کے کمیشن نے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو سرے سے جرائم کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ کرکے اسی مضحکہ خیز موقف کا اعادہ کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں ایک عام شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی شخص کے طرز عمل میں اپنے لیے اہانت اور تحقیر محسوس کرے تو ”ازالہ حیثیت عرفی” کے تحت عدالت سے رجوع کرے اور اپنی توہین کرنے والے کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر اپنی حیثیت عرفی کے تحفظ کا حق استعمال کرے۔ لیکن یہ لوگ مذہب اور مذہبی شخصیات کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کی ”حیثیت عرفی” مجروح ہو رہی ہو تو ان کی نمائندگی کرنے والے حضرات اس حیثیت عرفی کے تحفظ کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ گویا مغرب اور ان کے ہمنوا ایک عام شخص کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنی عزت اور حیثیت عرفی کے تحفظ کے لیے قانونی کاروائی کرے اور وہ کسی عام شخص کی عزت اور حیثیت عرفی کو مجروح کرنے کو جرم سمجھتے ہیں، لیکن حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مذہبی شعائر کی توہین کو وہ جرم نہیں سمجھتے اور اسی بنیاد پر پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ توہین مذہب کو غیر مجرمانہ فعل قرار دے۔

اس پس منظر میں ملکہ برطانیہ کی طرف سے سلمان رشدی کو سر کا خطاب دینے کا عمل اور امریکا کے مذہبی آزادی کمیشن کی طرف سے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو ”غیر مجرمانہ” قرار دینے کی یہ وارننگ جہاں اہل علم و دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور آزادی رائے اور آزادی مذہب کے نام پر مغرب کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس خطرناک کنفیوژن سے نئی نسل کو نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، وہاں یہ بات ملک کے ارباب حکومت و سیاست اور دینی قیادت کے لیے بھی دعوت فکر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ گزشتہ سال ستمبر کے دوران امریکی وزارت خارجہ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں: حدود آرڈیننس، تحفظ ناموس رسالتۖ کے قانون اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے والی دستوری اور قانونی دفعات کے خاتمے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ حدود آرڈیننس کے ساتھ تو جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے کہ ”تحفظ حقوق نسواں ایکٹ” کے نام سے حدود شرعیہ کو سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اب تحفظ ناموس رسالتۖ کے قانون کی باری ہے جس کے لیے امریکا کے مذہبی آزادی کے کمیشن نے حکومت پاکستان سے باضابطہ طور پر مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ توہین مذہب کو جرائم کی فہرست سے خارج کرے اور مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو غیر مجرمانہ فعل قرار دے۔ خدا کرے کہ ہماری دینی اور سیاسی قیادت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناموس رسالتۖ کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا کر سکے، آمین۔