مریم ظاہرعبدالعلیم (خانیوال)
وہ پریشان حال ادھر ادھر پھر رہاتھا۔ فکر اس کی پیشانی پر عیاں تھی۔ کندھے پر لگے سافے سے وہ باربار پسینہ پو نچھ رہا تھا۔ یہ پسینہ نہ جانے آگ برساتے سورج کی حدت کا تھا یا خالی ہاتھ گھر جانے کی ندامت کا ۔ یا پھر اپنےبچوں کی انکھوں میں امید کے روشن دیے بجھ جانے کے خوف کا!! وہ جیسے ہی کسی جانور کی قیمت معلوم کرتا، اس کی امید دم توڑ جاتی۔ وہ بار بار جیب میں رکھے رومال کو تھپتھپا کر اس کی موجودگی کی یقین دہانی کر رہاتھا جس میں معمولی سی رقم لپٹی ہوئی تھی۔ وہ جس بھی جانور کے مالک کے پاس جاتا اس سے بات کرنے سے پہلے وہ ایسا ہی کیا کرتا۔ اسے احساس تھا کہ اتنی کم رقم سے وہ جانور ہر گز نہیں خرید سکے گا، مگر پھر بھی وہ مویشی منڈی میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ آگ برساتا سورج ، گرمی کی شدت، عوام کی دھکم پیل، ہر چہرے پر رقم پریشانی کی الگ داستان، حبس زدہ ماحول، منڈی میں پھیلی عجیب سی بو چاچا مقصود کی پریشانی میں اضافےکا باعث بن رہی تھی۔
چاچا مقصود ایک دیہاڑی دار مزدور تھا۔ پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا وہ واحد کفیل تھا۔ تینوں بچوں کو چاچا نے نہایت شوق سے سکول میں ڈالا کہ بڑے ہو کر افسر بنیں گے اور اس کی طرح محنت مزدوری کی بجائے آسائشوں والی زندگی گزار سکیں۔ اس ہوش ربا مہنگائی میں گھر کے اخراجات اور پھر بچوں کی تعلیم کے اخراجات چاچا کس طرح پورے کر تا تھا وہ خود ہی جانتا تھا۔ کبھی کبھار چاچا کا عزم ڈگمگانے لگ جاتا کہ بچوں کو سکول سے اٹھا کر کسی دکان میں بطور چھوٹو بٹھا دے، چلو چار پیسے ہاتھ آئیں تو اسے بھی کچھ آسرا ہو جائے، مگر بچوں کو بڑا آدمی بنانے کا عزم اسےدھوپ میں بھی مزدوری پر مجبور کر دیتا تھا۔ آج بھی وہ بچوں کی فرمائش بلکہ ضد پر مویشی منڈی آگیا۔ کچھ سلیقہ شعار زوجہ کی پس انداز کی ہوئی رقم اور کچھ قربانی کا جذبہ بھی اسے یہاں کھینچ لایا مگر جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اسےخالی ہاتھ گھر جانے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ شام ہونے کو آئی تھی اور کچھ ہی دیر میں سورج غروب ہوا چاہتا تھا مگر چاچا کو ابھی تک ان کے بجٹ کا کوئی جانور نہ مل سکا۔ عید میں ایک ہی دن باقی تھا۔ چاچا مقصود صافے سے پیشانی کاپسینہ پونچھتے ہوئے منڈی سے باہر آگیا۔ باہر آتے ہی انہوں نے ایک آہ آسمان کے سپرد کی اور ڈھلکتے کندھوں اور دھیمی چال سے چلتے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
٭
نہایت تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سکون کا کوئی کونہ اسے نصیب نہیں۔ وہ اس بھری دنیا سے کہیں دور نکل جانا چاہتا تھا۔ اضطراب اس کے چہرے پر عیاں تھا۔ اب وہ شہر سے دور نکل آیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ دھیمی رفتار پر آگیا۔ بھاگتے دوڑتے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے مگر اس کی آنکھوں کی بے چینی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ اچانک اس نے سڑک کے کنارے گاڑی روکی اور آنکھیں موند کر فطرت کی لطافت کو محسوس کرنے لگا۔ اسے رگ وپے میں سکون اتر تا ہوا محسوس ہوا۔ اس کے باوجود کوئی تشنگی تھی جو اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ اچانک اس نےآنکھیں کھولیں اور گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھادی۔ تھوڑا آگے جا کر اس نے پھر گاڑی روک دی اور نیچے اتر آیا۔ وہ ایک درخت کے نیچے پڑے لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا اور سر پیچھے لگا کر آسمان کو دیکھنے لگا۔ اڑتے پرندوں کی ڈار اسکی آنکھوں کو نہایت بھلی محسوس ہوئی۔ اس کے لب ذرا سے مسکرائے اور نظریں آسمان کی وسعتوں کو کھوجنے لگیں۔ پھر ان آنکھوں نے ڈوبتے سورج کا منظر دیکھا۔ آسمان پیلاہٹ سے نیلاہٹ میں بدلنے لگا۔ مگر اس کی بے چینی تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتاتھا جیسے اسے کسی کی تلاش ہے یاوہ کسی انتظار میں ہے۔
اسے اپنے قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص ملگجے کپڑوں میں ملبوس کندھے پر ڈالے پریشان حال چہرہ لیے اس کے برابر میں براجمان تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نوجوان بے اختیار مسکرادیا۔ اجنبی شخص کو یوں اپنائیت سے مسکراتے دیکھ کر ادھیڑ عمر شخص بو کھلا سا گیا۔
’’منڈی آیا تھا جانور خرید نے مگر قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ گنجائش نہیں ہوئی جانور لینے کی۔ ان شاء اللہ اگلے سال سہی۔‘‘
ادھیڑ عمر شخص جلدی جلدی بول گیا۔ تو جو ان کی مسکراہٹ سے اس نے قیاس کیا کہ شاید اسے اس کی پریشانی معلوم ہو گئی ہے اس لیے وہ خود ہی اپنی پریشانی کی وضاحت کرنے لگا۔
نوجوان نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے دھیرے سے سر ہلا دیا۔
’’چلتے چلتے تھک گیا تھا اس لیے تھوڑی دیر سانس لینے کو بیٹھا ہوں۔‘‘ چاچا مقصود کو شاید بولنے کی عادت تھی۔ نوجوان بھی ان کی چلتی زبان سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
’’شہر سے آئے ہو ؟‘‘ پہلا سوال ہوا۔
نوجوان نے مسکراتے ہوئے فقط سر بلا کر جواب دیا۔
’’لگتا ہے گونگا ہے۔‘‘ چاچا مقصود منہ ہی منہ میں بڑ بڑانے لگا۔’’اچھا!! لگتے تو شہری ہو۔‘‘ چاچا نے اندازہ لگایا۔
’’چلو میں چلتا ہوں۔‘‘چاچاصافہ جھاڑ کر کندھے پر ڈالا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک بار پھر جیب تھپتھپا کر رومال کی موجودگی کی یقین دہانی کی اور چل پڑا۔ سوچوں کی مکڑیاں پھر سے جال بنے لگیں اور چاچا ان جالوں میں اٹھنے لگا۔
ابھی اسے چلتے چلتے دس پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اچانک اسے آواز سنائی دی۔
’’چاچا جی رکیں!‘‘یہ وہی نوجوان تھا۔
’’جی پتر! خیر ہے ؟ ‘‘ چا چا حیرت سے نوجوان کی طرف دیکھنے لگا۔
’’چاچاجی یہ میری طرف سے اپ کے لیے چھوٹا سا تحفہ ۔‘‘ نوجوان نے بکرے کی رسی چاچاچی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
’’پتر…یہ…!!‘‘ چاچا بو کھلا سا گیا۔
’’صرف ایک چھوٹا سا تحفہ ہے چاچاجی! قربانی اگلے سال کیوں ؟ اسی سال کیوں نہیں؟‘‘ نوجوان نے مسکراتے ہوئےکہا۔
’’مگر…پتر!‘‘چاچا اب بھی کشمکش میں تھا۔
’’چاچاجی مجھے چلتی پھرتی نیکی کرنے کی عادت ہے۔ میر ا تحفہ قبول کر کے میری مدد کریں۔‘‘ نوجوان کی آنکھوں میں عاجزی کا عنصر نمایاں تھا۔ چاچا نے کشمکش میں بکرے کی رسی تھام لی۔
’’یہ بکرے کا خرچ!‘‘ نوجوان نے ہزار ہزار کے چند نوٹ چاچا کی مٹھی میں تھمادیے۔
چاچانے نوجوان کی آنکھوں میں جھانکا جہاں سکون کا سمندر موجزن تھا۔چاچا کی آنکھوں میں شکرانے کے موتی جھلمل کرنے لگے۔
’’میرے لائق کوئی خدمت پتر ۔۔۔!!‘‘ اس نے پورے خلوص سے پوچھا۔
’’بس اتنی سی درخواست ہے چا چاجی کہ کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کیجیے۔ یقین جانیں سکون کی ایسی دولت نصیب ہو گی جو بیان سے باہر ہے ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نوجوان کی نظروں کے سامنے مختلف ہسپتالوں اورسائیکالوجسٹ کے دفتروں میں لگنے والے چکر گزر گئے جو اسے ڈپریشن سے نکالنے میں ناکام رہے تھے مگر چلتی پھرتی نیکیوں نے اس کی زندگی آسان کر دی۔ اب جب کبھی اسے بے چینی محسوس ہوتی تو وہ دوائی کی طرح چلتی پھرتی نیکی کی تلاش میں نکل پڑتا۔
’’اچھا چلتا ہوں چاچاجی۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔‘‘ نوجوان نے واپسی کی جانب قدم بڑھا دیے۔
چاچا کبھی لمحہ بہ لمحہ دور جاتے تو جو ان کو دیکھتا اور کبھی بکرے کو۔ نوجوان نے چاچا کے دل و دماغ میں سوچ کا نیا در وا کر دیا تھا۔