(32)
وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب
دشمن ملک کے انچارج نے ہمیں ایک را ت کا موقع اس لیے دیا تھا تاکہ ہم میں سے کوئی اپنی جان بچانے کے لیے اسے سچ بتادے لیکن ہم سب ہی خاموش رہے ۔ دو ،چار نے تو رونے جیسی شکلیں بنا کر کہا کہ ہم اسمگلر ہی ہیں۔ آپ ہمارے بارے میں معلومات کروالیں۔ یہاں وہاں کے اسمگلروں سے پوچھ لیں ۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا بہت بڑا گروپ ہے ۔ یہ سب باتیں ہوتی رہیں لیکن میں نے نوجوانوں کو خاموشی سے اشارہ کردیا کہ آج رات ہی یہاں سے نکلنا ہے ۔ زندگی رہی تو بچ کر اپنے ملک میں داخل ہوجائیں گے ،ورنہ شہید ہوجائیں گے ۔ کیوں کہ مجھے انچارج کے ارادے ٹھیک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ جب ہمیں کوٹھریوں میں ڈالا جا رہاتھا تو میں نے اشاروں میں اپنے دوستوں کو پلان سمجھا دیا۔نشاط صاحب راضی نہیں تھے ۔ وہ کہنے لگے یار !ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی ۔ تم مجھے مروانے کے چکر میں ہو۔ ہم اپنی حقیقت بتادیتے ہیں، یہ لوگ ہماری گرفتاری ظاہرکردیں گے تو ہمارا ملک ہمیں بین الاقوامی قانون یا کسی بھی سفارتی طریقے سے ہمیں چھڑوا لے گا۔ ہم نے ان کے ملک میں کوئی غیر قانونی کام تو کیا نہیں ۔
وہ کوٹھریاں اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھیں لیکن تعمیر ناقص تھی ۔ کئی جگہ سے دیواریں کمزور تھیں۔ان دیواروں کو میں پہلے ہی چیک کرچکا تھا۔ میں نے دروازے کی سلاخیں نکال لیں ۔کچھ لڑکے وہاں سے باہر نکلے اور انھوں نے پہرے داروں کو قابو کرلیا۔ میں نے کوٹھری کی دیوار کے کمزور حصے کو تین چار لاتیں مار کر اتنا توڑ دیا کہ ہم وہاں سے نکل سکتے تھے ۔ مجھےسب سے زیادہ نشاط صاحب کی فکر تھی ۔ مجھے اپنی زندگی بھی بچانی تھی اور باقی لڑکوں کی بھی۔ ساتھ ہی نشاط صاحب کو بھی نکالنا تھا ۔ میں نشاط صاحب کو لے کر اس جیل نما احاطے کی پچھلی دیوار کی جانب بھگایا ۔ لڑکوں نے اگلے چندپہرے داروں کو قابو کرکے گیٹ کی طرف حملہ کردیا۔ جس کا جس طرف منہ ہوا وہ بھاگ کر نکل گیا۔ہم بیس لڑکوں کے علاوہ وہاں کچھ اور لوگ بھی کوٹھریوں میں موجود تھے جو کسی وجہ سے پکڑے گئے تھے۔ معلو م نہیں ،وہ نکل سکے یا نہیں لیکن ہمارے سب لڑکے نکل آئے ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ چارلڑکے دوسروں کو نکالتے ہوئے شہید ہوگئے تھے جبکہ چار کو راستے میں شہید کردیاگیا تھا۔ بارہ جوان واپس پہنچ سکے تھے ۔ میں نے احاطے کی پچھلی دیوار میں بھی نقب لگائی ۔ وہ دیوار ویسے ہی کمزور تھی۔ میں تنہا ہوتا تو شاید لڑائی میں شریک ہوجاتا لیکن نشاط صاحب کو نکالنا سب سے اہم کام تھا۔ ہم جس طرح خالی ہاتھ دشمن پر ٹوٹ پڑے تھے اس کے بعد اسمگلروں والا کوئی بہانہ نہیں چل سکتا تھا۔اب لڑنا تھا، شہید ہونا تھا یا واپس اپنے ملک پہنچناتھا۔ یہ بات سب ہی سمجھتے تھے کہ دوبارہ زندہ حالت میں دشمن کے ہاتھ نہیں آنا۔
میں نشاط صاحب کو لے کراندھیرے میں رینگتاہو ا قریب کے کھیت میں داخل ہوگیا۔ کھیتوں میں چلنا آسان کام نہیں ہوتا لیکن مارشل آرٹ کی سخت تربیت میرے کام آرہی تھی۔ ساری رات چلنا یا دوڑنا میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ کھیتوں کے راستے میں کتوں کا بہت خطرہ تھا۔ میں دعائیں پڑھتا رہا کہ کتے مجھ پر نہ بھونکیں ورنہ دشمن کواندازہ ہوجائےگا کہ کسی جگہ سے اجنبی لوگ گزررہے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس راستے میں کتے نہیں ملے ۔
میں نشاط صاحب کو لے کر صحرا کی طرف بڑھ رہا تھا۔جس جگہ ہم موجود تھے وہاں سے پاکستان کی سرحد تک پچیس،تیس کلو میٹر کا نیم صحرا ئی علاقہ تھا لیکن مجھے یہ خطرہ تھا کہ اس طرف ناکہ بندی کافی سخت ہوگی۔ میں نے وہ راستہ چُنا جو بڑے صحرا کی طرف جارہا تھا۔ یہ حصہ تقریباً سو کلو میٹر تک پھیلا ہوا تھا ۔ رات میں سفر کا اندازہ ستاروں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ نشاط صاحب کو اس میں مہارت تھی ۔ وہ مجھے بتاتے رہے کہ اس طرف چلنا ہوگا۔ چلتے چلتے نشاط صاحب کی ہمت جواب دے گئی ۔ وہ بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ بس میں مزیدنہیں چل سکتا۔تم مجھے چھوڑ دو اور خود نکل جاؤ ۔ میں زندہ رہا تو کسی نہ کسی طرح آہی جاؤں گا لیکن میں دشمن کوگرفتاری نہیں دوں گا۔ میں نے ان کی ہمت بڑھانے کی کوشش کی لیکن وہ واقعی بہت تھک گئےتھے۔ ابھی تو ہم نے ایک چوتھائی سفر کیاتھا۔ آرام نہیں کرسکتے تھے کیو ں کہ ہمیں رات کے اندھیرے میں صحرا کے اندرتک جانا تھا۔ میں نے دیکھا کہ نشاط صاحب تو ہمت ہار گئے ہیں لہٰذاان کے ساتھ اب کچھ اور کرنا پڑے گا۔ میں نے نشاط صاحب کو ایک درمیانی طاقت کا پنچ مارا۔ ان کے ہو ش و حواس رخصت ہوگئے ۔ اب انھیں کندھے پر لادا اور ریگستان کی جانب دوڑ لگادی۔ یہ شکر ہے کہ نشاط صاحب ہلکے بد ن کے آدمی تھے ۔ انھیں اٹھا کر دوڑنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ جب کچھ تھکاوٹ محسوس ہوتی تو انھیں اتار دیتا۔کچھ دیر سانس لیتا پھرانھیں اٹھا کر دوڑ لگادیتا۔ ریگستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک جگہ پانی مل گیا۔ وہاں نشاط صاحب کو اتارا ۔وہ ہوش میں آچکے تھے لیکن اب میرے خوف کی وجہ سے بول نہیں رہے تھے۔ ان سے معافی مانگی ۔ اس وقت تک صبح صادق شروع ہونے والی تھی ۔ میں نے یہ کہا پانی پی لیں ۔ کچھ ہمت سے کام لیں ۔ جہاں آپ بہت تھک جائیں گے میں آپ کو اٹھا لوں گا۔ اب یہاں سے صحرا شروع ہورہا ہے ۔ ہمیں سو کلو میٹر چلنا ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے ملک میں داخل ہوجائیں گے ۔ وہ کہنے لگے کہ پانی پی کرمیں مزید دس ،بارہ کلو میٹر چل لوں گا لیکن اس کے بعد کیاہوگا؟ میں نے کہا کہ اللہ مالک ہے ۔ گرمی کا موسم نہیں ہے ۔ ان شاء اللہ دو، تین دن میں ریگستان سے نکل جائیں گے ۔ راستے میں کچھ نخلستان بھی ہیں۔ وہاں سے بھی ہمیں مدد مل جائے گی۔ خیر انھوں نے ہمت کی اور ہم ریگستان میں داخل ہوگئے ۔ مجھے یقین تھا کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے اگر ہم دس ،پندرہ کلو میٹر اندر تک چلے گئے تو پھر دشمن ہمیں نہیں ڈھونڈ سکے گا۔ ہم مسلسل چلتے رہے ۔نشاط صاحب نے ستاروں کی مدد سے راستے کا تعین کرلیا تھا۔ صحرا میں سفربہت مشکل کام ہے ۔راستہ نہیں ملتا۔ انسان کو سمت معلوم نہیں ہوتی ۔ لیکن ہمیں سمت کااندازہ تھا۔ یہ صحرا مکمل غیرآباد بھی نہیں تھا۔ کہیں ،کہیں کچھ قبائل رہتے تھے۔ ان قبائل سے مدد مل سکتی تھی اور خطر ہ بھی ہوسکتا تھا لیکن ان کی زبان میں سمجھتا تھااور نشاط صاحب تو بول بھی سکتے تھے اس لیے میرا منصوبہ یہی تھاکہ آگے جا کر کوئی قبیلہ مل گیا تو ان سے اونٹ حاصل کرلیں گے اور اس کے بدلے میں انھیں کوئی ایسی نشانی دیں گے جس کی مدد سے وہ اونٹ کے پیسے اور مزید کچھ چیزیں لے لیں گے۔
یہ کافی مشکل سفرتھا لیکن اللہ پاک کی مدد سے آسان ہوگیا۔ تیس ،پینتیس کلو میٹر چلنے کے بعد ہمیں ایک نخلستان مل گیا۔ وہاں ایک قبیلہ موجود تھا۔ہم نے وہاں ایک آدمی سے گپ شپ لگائی۔اس نے کہا کہ آپ کو سرحد پار کرنے کے لیے میں اونٹ دے دوں گا لیکن آپ اس کی ادائیگی کیسے کریں گے ؟ میں نے پوچھا کہ کون سے ملک کی کرنسی چلے گی ؟ اس نے کہا کسی بھی ملک کی ہو چل جائے گی۔ میں نے اسے ایک چمڑے کا ٹکڑادیا اور کہا کہ تم جب بھی سرحدپر جاؤ تو وہاں یہ ٹکڑا دکھانا۔ نشاط صاحب کا نام بتانا اور کہنا کہ ان دونوں میں سے کسی بھی ایک بندے سے رابطہ کروادیں۔ہوسکتاہے کہ تمھیں اس اونٹ کے ساتھ تین اونٹوں کی قیمت اور کچھ مراعات مل جائیں گی۔وہ راضی ہوگیا۔ یہ قبائل سرحد کے دونوں آتے جاتے رہتے تھے اور انھیں اسمگلنگ وغیرہ کے دھندوں سے کافی دولت حاصل ہو جاتی تھی جو یہ لوگ شراب،جوئے اور دیگر الٹے سیدھے کاموں میں اڑاتے رہتے تھے۔
ہمیں اونٹ مل گیا۔ میں نے گزری میں سندھیوں اور بلوچوں سے اونٹ چلاناسیکھاہوا تھا۔ وہ چیز یہاں کام آگئی۔ کچھ کھانے ،پینے کا سامان بھی ساتھ لے لیا تھا۔ اس طرح باقی سفر آسانی سے طے ہوگیا ۔یوں میں کچھ دن کی گرفتاری کے بعد واپس اپنے ملک پہنچ گیالیکن یہ سارا قصہ ہم نے پوشیدہ رکھا تھا کہ ہمارے بارے میں درست اطلاعات دشمنوں تک نہ پہنچ جائیں۔ بہت سے لوگ پاک فوج کے بارے میں الٹی الٹی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب میں یہ باتیں سنتا ہوں تو مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ فوج اس ملک کے لیے کس طرح کام کررہی ہے ۔ مسائل ہر جگہ پیش آتے ہیں۔ہمیشہ اپنوں کے ساتھ بنا کر رکھنی پڑتی ہے ۔ ہمت اور حوصلے کے ساتھ چلنا پڑتاہے ۔ہمارے دشمن بہت ہیں ۔ہمیں آپس میں دشمنی نہیں کرنی چاہیے ۔
جب ہم واپس پہنچ گئے تو ہمیں کافی شاباشی ملی۔ نشاط صاحب نے رپورٹ لکھی ۔اس میں انھوں نے میری کارکردگی بتائی،لیکن انھوں نے یہ بھی لکھ دیاکہ اس بندے نے میری بات نہیں مانی۔ اگر یہ بات مان لیتا تو شاید تمام لوگ زندہ سلامت واپس لوٹ آتے۔ اس نے دشمن کے تین بندوں کو کسی وجہ کے بغیر قتل کیا جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوگئے ۔ معلوم نہیں اس پر اعلیٰ سطح پر کیا سوچا گیا ہو لیکن مجھ سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوئی۔ بس کچھ عرصہ بعدمجھے خاموشی کے ساتھ سعودی عرب بھیج دیاگیا جہاں میں تقریبا ًچار سال رہا۔ یہ بات کافی عرصے بعد معلوم ہوئی کہدشمن ملک کے انچارج نے تصویرکے ذریعے اپنے افسران کو میری نشان دہی کردی تھی اور میری تصاویر کچھ مقامات پر آویزاں کر رکھی تھیں۔
اس واقعے کے تقریبا ً سات،آٹھ سال بعد کی بات ہے ۔ میں منہ اندھیرے اپنے گھر سے ساحلِ سمندر تک صبح کی دوڑلگاتاہوا جا رہا تھا کہ اچانک میرے قریب سے ایک کارگزری اور پھر آگے جا کررک گئی۔ میں سمجھ گیا کہ کسی نے مجھے پہچان کر کارروکی ہے۔ اب معلوم نہیں ،دوست ہے یا دشمن۔ میں ہوشیار ہوگیا۔ اتنے میں کار کے اندر سے کسی نے پنجابی میں کہا، اوئے حملہ نہ کریں،میں تیرا پرانا یارآں۔آواز جانی پہچانی لگی۔ اتنے میں ایک موٹا تازہ بندا ہنستا ہوا کار سے نکل آیا۔ اس نے میرے لیے اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے تھے۔ میں نے پہچا ن لیا ۔ وہ نشاط صاحب تھے۔ کار کے اندر ان کی بیگم اور د و بچے بھی موجود تھے۔ میں جا کر ان سے ملا۔ان کی ترقی ہوچکی تھی۔ اب وہ بڑے افسر تھے ۔ لیکن میرے ساتھ دوستوں کی طرح مل رہے تھے ۔ مجھے گلے سے لگا کر چیخے ۔ دیکھو بیگم ! یہ ہے وہ بندہ جس کی وجہ سے آج میں زندہ ہوں۔ ان کی بیگم بھی کار سے نکل آئیں اور بہت تشکرکے ساتھ مجھے سلام کیا۔میں نےکہا کہ بھابھی جی ،مجھے معلوم نہیں ان صاحب کے زندہ رہنے پر آپ کو میراشکریہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں لیکن آپ کے شوہر صاحب بس زبان سے شکریہ ادا کررہے ہیں،ان کے دل میں کچھ اور ہے ۔ نشاط صاحب کی بیگم نے حیران ہو کران کی طرف دیکھا ،انھوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ،اویار ! تم میری بیگم کو تو میرے خلاف پٹی نہ پڑھاؤ ۔ تمھیں رپورٹ پتاچل گئی ہوگی، یار مجھے کچھ تو لکھنا تھا،لیکن سچی بات یہ ہے کہ تم بڑے خطرناک آدمی ہو۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی بیگم صاحبہ سے کہا، دیکھو بیگم !یہ اس عمر میں بھی دوڑ لگا رہا ہے تو خطرناک آدمی ہی ہوا ناں !ان کی بیگم مجھے مخاطب کرکے بولیںکہ آپ اپنے دوست کو بھی سمجھائیے کہ یہ بھی کچھ دوڑ وغیرہ لگایا کریں ۔موٹے ہوتے جارہے ہیں۔ اب میں ان کی بیگم کو کیا بتاتا کہ آپ کے شوہر صاحب سے تواس وقت بھی نہیں دوڑا جار ہا تھا جب موت سر پر سوار تھی ۔اب بیگم کے کہنے پر وہ کیا دوڑ لگا تے ۔ میں نشاط صاحب سے گلے ملا اور وہ رخصت ہوگئے۔ میں دوڑتا ہوا ساحلِ سمندر کی طرف چلاگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭