diye

دیے جلتے رہیں

تماضر ساجد۔ صادق آباد

جب سے غزہ میں جنگ چھڑی ہے، میں ایک عجیب سی بے چینی میں گھر گیا ہوں۔ شروع دنوں میں، مجھے بھی بہت جوش چڑھا تھا۔ میں نے بائیکاٹ کمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان دنوں ہمیں یونیورسٹی سے چھٹیاں تھیں۔ نیا سیمسٹر شروع ہوا تو ہمیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہوگیا۔ ہماری واپسی شام کو جاکر ہوتی ہے، دوپہر کا کھانا یونیورسٹی میں ہی کھانا ہوتا ہے۔ پہلی مشکل یہ پیش آئی کہ اکثر اسٹوڈنٹ ڈیلز مشہور امریکی فوڈ ریسٹورنٹس کی ہی تھیں۔ مقامی اچھے ہوٹلوں کی ایسے کاموں کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے۔

پھر نیا مہینہ شروع ہوا تو راشن خریدتے وقت دوسری مشکل سامنے آئی۔ ہوا کچھ یوں کہ اچھی کوالٹی کے سب سرف ’انہیں‘ کے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے شہر سے کوئی اچھا برتن دھونے والا صابن ہی نہیں ملا۔

آہستہ آہستہ مجھے کمپین میں حصہ لیتے شرم آنے لگی۔ خود کچھ کر نہیں رہا تو دوسروں کو کیا نصیحت کروں۔ لاکھ گناہ گار سہی پر منافق تو نہیںہوں۔ بس اتنا ہوا کہ میں نے غزہ سے آنے والی ویڈیوز دیکھنا چھوڑ دیں۔ جب ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے تو خوا مخواہ کی ٹینشن لینے کا کیا فائدہ؟ مسئلہ یہ ہوا کہ انہی دنوں ہمارے تایا جان ہمارے گھر میں رہنے کے لیے آگئے۔ انہیں کچھ عرصہ یہیں رہنا تھا۔
ہماری ان کے ساتھ بہت بنتی ہے لیکن جنگ کے آغاز کے بعد سے انہیں نجانے کیا ہوگیا ہے۔ ہم باتیں کرنے بیٹھتے ہیں تو وہ یا تو گم صم ہوجاتے ہیں یا عجیب عجیب باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اب تو ہمارا دل چاہنے لگا ہے کہ وہ جلدی واپس جائیں تو ہماری جان چھوٹے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے، میرا چھوٹا بھائی علی بال کٹوا کر آیا تو کہنے لگے: ’’وہ بچہ بھی ایسے ہی بال سیٹ کروا کر آیا ہوگا۔‘‘
’’کون سا بچہ تایا جان؟‘‘ علی نے اشتیاق سے پوچھا۔

’’غزہ کا تھا بیٹا، کہتا تھا کہ شہید ہوں گا تو نئے اسٹائل میں تصویر بنے گی۔ میں نے تو اس کی شہادت کی خبر میں پڑھا تھا۔‘‘ تایا جان آبدیدہ ہوگئے تو علی انہیں چپ کروانے لگا۔ میں کمرے سے اٹھ کر باہر آگیا۔
آج میں نے حتمی بات کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا تبھی تایا جان آئے تو میں نے انہیں بٹھالیا۔
’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘

’’تایا جان دیکھیں آپ کتنے کمزور ہوگئے ہیں، کیوں اتنی ٹینشن لیتے ہیں جب کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ آپ کے ٹینشن لینے سے وہاں کے باسیوں کی بھوک تک نہیں مٹ سکتی۔‘‘ میرا لہجہ تلخ ہوگیا تھا شاید۔

’’کس نے کہا کچھ نہیں کرسکتا؟ بساط بھر کوششیں کر تو رہا ہوں۔ جتنی امداد بھجوا سکتا تھا، بھجوادی، جتنے لوگوں کو مقامی اشیاء کے استعمال پر لگا سکتا تھا، لگایا، اب یہ کوشش کر رہا ہوں کہ کچھ کاروباری دوستوں کے ساتھ مل کر بائیکاٹ کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرسکوں۔‘‘

’’اف تایا جان…‘‘ میں جی بھر کر بد مزہ ہوا۔
’’بیٹا بات دراصل یہ ہے کہ ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں، نتائج اللہ کے ذمے۔ باہر والے تو پھر کچھ سن لیتے ہیں مجھے تو دراصل تم لوگوں کی فکر ہے۔ تم لوگ ہماری اگلی نسل، ہمارا مستقبل۔‘‘ میرے چہرے پر بے زاری دیکھ کر انہوںنے موبائل نکال لیا۔

’’بیٹے میرے جیسے بوڑھوں کی نہیں سن سکتے تو چلو اپنے جیسے نوجوانوں کی سن لو۔ یہ دیکھو یہ معتز عزایرہ ہے، چوبیس برس کا صحافی۔ تم سے عمر میں کچھ ہی بڑا ہے۔ دن رات دنیا کو غزہ کے حالات سے باخبر کر رہا ہے۔ تمہاری طرح اس کے بھی کچھ خواب ہوں گے ہی۔

ہم مسلمانوں کی نہیں سنتے تو ان غیر مسلموںکو دیکھو، یہ سڈنی ہے، یہ نیویارک۔ یہ سب کس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟ انہیں اس سخت موسم میں کیا چیز گھروں سے باہر کھینچ لائی ہے؟‘‘

’’تایا جان آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ میں واقعی یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
’’میں نے تو بس اتنا پڑھا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسجدِ اقصیٰ جاکر نماز نہیں پڑھ سکتے تو وہاں کے دیوں کے لیے تیل بھجوادو۔‘‘ ان کی آواز ایک دم بھرا گئی۔

’’القدس کے نوجوان وہاں کے دیوں کو خون سے روشن رکھنے کی سعی کر رہے ہیں۔ مجھے شرم آتی ہے جب تم لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ تم دیے جلانے والے نہیں بنتے تو بجھانے والے بھی نہ بنو۔ میں سوچتا ہوں میرے پاس ہے ہی کیا جو ان کی نذر کروں۔ بس ایک آنسو ہی میرا کل اثاثہ ہیں سو وہی بہاتا ہوں کہ شاید ان کی برکت سے میرے نوجوان ان دیوں کی روشنی بڑھانے والوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجائیں۔ بس بیٹا اس سے بڑھ کر تو کچھ نہیں چاہا۔‘‘ تایا جان کے آنسوئوں کا تار بندھ گیا۔ میں مبہوت سا ان آنسوئوں کی چمک میں ننھے ننھے دیپ جلتے دیکھتا رہا۔
٭٭٭