Surang Wali Sipahi

سرنگ والے سپاہی

عیشہ مریم

رات کا پچھلا پہر تھا۔ نگرانی پر مامور سپاہیوں کے علاوہ باقی سب سو چکے تھے۔ مسلمانوں کا فوجی لشکر دور سے دیکھنے پر چھوٹی سی بستی معلوم ہو رہا تھا۔ دور دور کہیں کوئی مشعل روشن تھی۔ سپہ سالار کا خیمہ بھی رات کے اس وقت روشن تھا۔ لشکر کا سالار اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا۔ چالیس دن کے مسلسل محاصرے کے بعد فتح نصیب ہوئی تھی، شکر تو واجب تھا۔ اپنے رب سے سرگوشیاں کرتے سالار کی توجہ خادم نے سلام کے ذریعے اپنی طرف کروائی۔ ’’جناب! باہر ایک سپاہی آیا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ نقاب سے چھپا رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ سرنگ والے سپاہی کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے۔‘‘

’’اسے اندر لے آؤ۔‘‘ سالار نے فوراً اجازت دے دی۔ اس لمحے کا تو اسے تین دن سے انتظار تھا۔ وہ اس سپاہی سے بے تابی سے ملنا چاہتا تھا جس کے ذریعے اللہ نے انہیں فتح بخشی تھی۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ مسلم افواج نے چالیس دن سے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ ایسے میں قلعے کے اندر جانے کا ایک راستہ مسلمانوں کو معلوم ہوا جو ایک سرنگ سے ہوکر قلعے کے اندر پہنچتا تھا مگر سرنگ انتہائی تنگ اور تاریک تھی اور یہ منصوبہ بھی خطرناک تھا۔

ایک سپاہی نے اس سرنگ سے ہوتے ہوئے قلعے میں پہنچ کر مسلم فوج کے لیے صدر دروازہ کھول دیا۔ فتح ملنے کے بعد لشکر کے سالار نے اس سپاہی کو آگے آنے کے لیے کہا مگر کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ سپہ سالار کا فرض تھا کہ وہ اس بہادر سپاہی کا اکرام کرے اور اسے انعام سے نوازے مگر دو دن مسلسل اعلان کے باوجود کوئی بھی سامنے نہ آیا۔ مجبور ہوکر یہ اعلان کروایا گیا کہ سرنگ والا سپاہی جس وقت چاہے سپہ سالار سے ملاقات کرنے آسکتا ہے۔ اس اعلان کے بعد رات کے اس اندھیرے میں کوئی اس روشن کردار سپاہی تک پہنچنے کا پیغام لے کر آیا تھا تو اسے انکار کیسے کیا جاسکتا تھا۔

خادم کے ساتھ وہ نقاب پوش خیمے میں داخل ہوچکا تھا۔ اس نے عرض کیا: ’’سرنگ والے سپاہی نے آپ سے ملنے کی تین شرائط رکھی ہیں۔ ایک اس سے اس کا نام نہیںپوچھا جائے گا اور نہ اس کا ذکر خلیفۃ المسلمین کے سامنے کیا جائے گا۔ دوسرا اس سے اس کا قبیلے نہیں پوچھا جائے گا اور تیسرا اس کو کوئی انعام نہیں دیا جائے گا۔‘‘ سپہ سالار نے تینوں شرائط مان لیں تو اس شخص نے کہا: ’’سرنگ والا سپاہی میںہوں۔‘‘ اور چلا گیا۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد سے سپہ سالار کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر نماز کے بعد بلند آواز میں یہ دعا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میرا حشر سرنگ والے سپاہی کے ساتھ فرما۔ اے اللہ اپنے گم نام بندے کو اپنی بہشت میں جگہ دے کر اس کا شایانِ شان اکرام فرما۔‘‘ آمین (’عیون الاخبار‘ امام ابن قتیبہ)
٭

کسی نے اسے جگایا تھا۔ اس نے مشکل سے آنکھیں کھول کر آنے والے کو پہچاننے کی کوشش کی۔ ’’ابواحمد؟ تم ہو؟‘‘
’’ہاں عمر میں ہوں۔ اٹھو فجر کا وقت ہونے والا ہے۔سحری کرلو۔‘‘ ابو احمد نے اسے سہارا دے کر بٹھایا۔ بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے بیٹھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ابواحمد نے دو گھونٹ پانی کے پلائے تو اس کے حواس کچھ بحال ہوئے۔

’’باہر نکلنے کا کوئی راستہ ملا؟‘‘ اس نے ساتھ بیٹھے خالد سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ خالد سر جھکائے بولا۔

’’ہم دوبارہ کوشش کریں گے ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی راستہ مل جائے گا۔‘‘ یاسر نے چادر ان سب کے درمیان بچھاتے ہوئے یقین سے کہا۔
ابو احمد نے ہاتھ میں پکڑا تھیلا چادر پر الٹ دیا۔ چند کھجوریں چادر پر بکھر گئیں۔ وہ غور سے کھجوروں کی تعداد کا اندازہ لگا رہا تھا۔ ’’بیس‘‘

’’ نہیں بائیس۔ ہاں پوری بائیس کھجوریں تھیں۔ بائیس!!‘‘
اس کے ساتھیوں کی تعداد بھی بائیس ہی تھی۔ سوچتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، سامنے کا منظر دھندلا گیا۔ہاتھ سے آنسو صاف کیے تو منظر بدل چکا تھا۔ وہ ایک سرنگ میں بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے الجزیرہ کا صحافی اور بائیں طرف کیمرہ مین تھا۔

’’آپ کتنے لوگ تھے یہاں اور کیسے محصور ہوئے؟‘‘ پہلا سوال آیا۔
’’ہم 28 لوگ تھے یہاں جب اسرائیلی بمباری سے سرنگوں کا بڑا حصہ بیٹھ گیا۔ باہر جانے کا ہر راستہ بند ہوگیا اور ہم یہاں پھنس گئے۔‘‘

’’آپ کتنے دن محصور رہے؟‘‘
’’ہم بائیس دن محصور رہے۔‘‘ عمر اب سنبھل چکا تھا۔

’’بائیس دن بغیر اشیاء ضرورت کے آپ لوگ کیسے رہے؟ کیا آپ کا کوئی ساتھی ان دنوں میں شہید ہوا؟‘‘
’’جی! ہمارے چھ (6) ساتھی شہید ہوئے بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے۔ آہستہ آہستہ ہمارے پاس موجود سامان بھی ختم ہوگیا تھا۔ نوبت روزے رکھنے کی آگئی۔ ایک ایک سپاہی کے پاس صرف ایک ایک کھجور تھی جو وہ آدھی سحری میں اور آدھی افطار میں کھاتا تھا۔‘‘

’’اور یہ چشمہ!!؟؟‘‘ صحافی نے زمین سے ابلتے ننھے چشمے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ہم نے ابتدا میں باہر نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ آہستہ آہستہ بھوک پیاس کی شدت سے کسی میں طاقت نہیں رہی کہ وہ اس مہم پر بار بار نکلے۔ ایسے میں ایک ساتھی ہمت کرکے دوبارہ راستہ تلاش کرنے نکلا مگر کچھ دیر بعد چشمہ ابل رہا تھا۔ اب ہمارے پاس پینے کے لیے وافر پانی ہے الحمدللہ، ہم اسے فلٹر پیپر (filter Paper) سے گزار کر پینے کے لیے محفوظ کرلیتے ہیں۔‘‘ کیمرہ مین نے کیمرہ چشمے کے پاس موجود دو نقاب پوش سپاہیوں پر مرکوز کردیا جو فلٹر پیپر سے گزار کر پانی کو پلاسٹک کی بوتلوں میں محفوظ کر رہے تھے۔

زمین سے نکلتا مٹیالا پانی اردگرد کی زمین کو سیراب کر رہا تھا۔ شاید ایسا ہی ہوگا چاہِ زم زم جب وہ پھوٹا تھا۔ یا پھر اس سے بھی زیادہ اونچا اور شفاف۔ جیسے زم زم کے چشمے نے عربوں کی روحوں تک کو تازگی بخشی۔ جیسے عقبہ بن نافعؒ کے لیے پھوٹ پڑنے والے چشمے سے پورے لشکر کو نئی زندگی ملی تھی اور پھر پورے افریقہ کو ایمانی وشادابی نصیب ہوئی تھی ویسے ہی یہ چشمہ بھی سرنگ والے سپاہیوں کو سیراب کر رہا ہے ۔ انہی کی یہ شان ہے کہ ان کے لیے چشمے پھوٹیں۔ جنہوں نے سرنگوں سے ہوتے ہوئے ایمان کا صدر دروازہ اندر سے کھول کر پوری دنیا کو اسلام کے قلعے میں آنے کی دعوت دی ہے۔ بھولی ہوئی مسجد اقصیٰ یاد کروادی۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
ایسے لوگ ہی در حقیقت اصل چراغ ہیں جن سے اقصیٰ کی روشنی سلامت ہے۔ ایسے چراغوں کے لیے دعاؤں کا ایندھن کم نہ پڑنے دیں۔ تاکہ کسی نسبت سے تو ہم بھی یہ دعا کرسکیں۔ ’’اللہ ہمارا حشر بھی ان سرنگ والے سپاہیوں کے ساتھ کرنا۔‘‘