دو کہانیاں
آئیے آج آپ کو ایک ہی زمانے کے دو الگ الگ خطوں میں رہنے والے دو آدمیوں کی سچی اور عبرت انگیز کہانیاں سناتے ہیں جنھیں پڑھ کر یقینا آپ کا دل کانپ جائے گا ۔ کانپنا چاہیےبھی بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہ پڑھ کر ہم سب کو خوب زار و قطار رونا چاہیے۔
پہلی کہانی بالا حرمین سے تعلق رکھنے والے عبداللہ القصیمی کی ہے۔
عبد اللہ کمال درجے کا داعی اور مبلغ اسلام تھا۔ حتی کہ کہنے والوں نے اسے ابن تیمیہ دوم کالقب دیا تھا۔ اُس کی اسلام اور نیشنلزم کے ٹکراؤ پر مشہور زمانہ کتاب ” الصراع بین الاسلاموالوثنیہ اہل علم میں اتنی مقبول ہوئی تھی کہ مسجد الحرام کے امام نے اُس پر پورا قصیدہ پڑھا اورمشہور عالم دین صلاح المنجد نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر بعض اہل علم نے کہا تھا:قصیمی نے اس کتاب کو لکھ کر گویا کہ جنت کا مہر ادا کر دیا !
دوسری کہانی امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جوزف اسٹس (Joseph Estes)کی ہے۔ انتہا درجے کا ایک متعصب عیسائی مسلمانوں پر طنز و تضحیک جس کا وطیرہ تھا۔ بیت اللہ کے حوالے سے نعوذ باللہ مضحکہ اڑاتے ہوئے کہتا تھا کہ بے وقوف مسلمان صحرا میں پڑے ایک سیاہ صندوق کی عبادت کرتے ہیں۔
اب اللہ رب العزت کی شان بے نیازی عجب رنگ میں ظاہر ہوئی۔
مبلغ اسلام قصیمی تکبر کا شکار ہو گیا۔ اپنی تعریفوں کے پل باندھنے لگا۔ کچھ برے کام بھی شروع کیے۔ آخر کبر اور بدعملی کی نحوست نے ایک دن رنگ دکھا ہی دیا ۔ شقاوت غالب آئی اورآسمان نے یہ عبرت ناک منظر دیکھا کہ جسے ابن تیمیہ دوم کہا گیا، امام کعبہ نے جس کی شان میں قصیدہ پڑھا، جسے جنت کا مہر ادا کر دینے والا کہا گیا ، وہ ملحد ہو کر مرتد ہو گیا۔