Turtle

کچھوا اور خرگوش کی ہوئی ملاقات

جاوید بسام

اس دن موسم بہت خوشگوار تھا۔ ایک کچھوا چہل قدمی کے لیے نکلا۔ وہ مزے سے پگڈنڈی پر چلا جا رہا تھا کہ اس کی ملاقات خرگوش سے ہوگئی۔

وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر رک گئے۔ اتفاق سے دونوں نے ایک دوسرے کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن دونوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

”تم کون ہو؟“ خرگوش نے پوچھا۔
”میں کچھوا ہوں اور تم کون ہو؟“ کچھوے نے جواب کے ساتھ سوال بھی کر دیا۔

”میں خرگوش ہوں۔“ خرگوش بولا۔
”اچھا تم خرگوش ہو، میں نے گھر میں اکثر تمھارا ذکر سنا ہے۔“ کچھوے نے کہا۔

”میں بھی تمھارے بارے میں بہت کچھ سنتا رہا ہوں۔ اچھا ہوا آج ملاقات ہو گئی، ہمارے آباء و اجداد میں اچھے تعلقات تھے۔“ خرگوش نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”ہاں …… ہاں میں جانتا ہوں ان کے کارنامے آج بھی انسان اپنے بچوں کو بطور سبق پڑھاتا ہے۔“ کچھوے نے کہا۔

”کہاں کا ارادہ ہے؟“ خرگوش نے پوچھا۔
”میں ذرا شمالی نہر تک جا رہا ہوں۔“

”میں بھی ساتھ چلوں؟“
”ضرور۔“ دونوں موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چل دیے۔

”اب زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ ہمارے آباء و اجداد کچھ بے وقوف سے لوگ تھے۔“
خرگوش کچھ دیر بعد گویا ہوا۔کچھوا خاموش رہا۔

”پچھلے دنوں میں ایک بڑی ریس میں اوّل آیا۔“خرگوش بولا۔
”یقینا آئے ہو گے۔“

”اکثر میں ریسیں جیتتا رہتا ہوں۔“خرگوش اس کے چہرے کو تکتے ہوئے بولا۔
”ہاں سب جانتے ہیں کہ خرگوش ایک تیز رفتار جانور ہے۔“ کچھوے نے کہا۔

خرگوش خوب ترنگ میں تھا،وہ مسلسل بول رہا تھا،کبھی چلتے چلتے اچھل پڑتا،کبھی گھاس میں لوٹ لگاتا تو کبھی بلاوجہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑتا۔
”میرا خیال ہے کہ ہم خاموشی سے چلیں تو بہتر ہے۔“کچھوے نے کہا۔

”میں زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتا۔“خرگوش بولا۔
وہ دونوں جھاڑیوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔

اسی وقت خرگوش ایک گھسا پٹا لطیفہ سنا کر زور سے ہنسا۔
”خاموش رہو۔“ کچھوے نے ڈانٹا۔

”مجھے مت روکو، موسم بہت اچھا ہے، میں بہت خوش ہوں اور آج میرا ’جنم دن‘ بھی ہے۔“ خرگوش چہکا۔
”یہ تمہارا مرن دن بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہم بھیڑیوں کے علاقے سے گزر رہے ہیں اور وہ سخت بھوک کی حالت میں شکار کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔“ کچھوے نے کہا۔

خرگوش نے قہقہہ لگایا۔ ”بھیڑئیے…… بھیڑئیے تو میری گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔“
اس نے شیخی بگھاری۔

کچھوے کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیاتھا۔
آخر بھیڑیے ان کے وجود سے آگاہ ہو گئے۔

کچھوے نے ان کے دوڑنے کی آوازیں جلد سن لیں اور فوراً پتھروں کے درمیان ہو کر اپنے خول میں محفوظ ہو گیا۔
دور سے دیکھنے پر وہ اب ایک پتھر کی طرح ہی لگ رہا تھا۔
خرگوش پہلے تو دم بخود رہ گیا، پھر تیزی سے بھاگا۔ بھیڑیے تعداد میں زیادہ تھے، وہ اسے مختلف سمتوں سے گھیرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وسیع میدان میں ان کی دوڑ جاری تھی۔ خرگوش کی جان پر بنی تھی وہ کسی بھٹ یا درخت کی کھوہ کی تلاش میں تھا جہاں چھپ کر جان بچا سکے لیکن میدان میں جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔اسی اثنا میں دوڑتے ہوئے بھیڑیے اس کے نزدیک پہنچ گئے۔

وہ تیزی سے اس پر جھپٹے اور ایسا لگا جیسے خرگوش پکڑا گیا۔ خوب مٹی اڑی۔ کچھوے نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں لیکن خرگوش کی قسمت اچھی تھی وہ بچ نکلاتھا۔
آخر اسے کانٹے دار جھاڑیاں مل گئیں اور وہ ان میں گھس گیا۔ وہ گھنی سخت نوکدار کانٹے والی جھاڑیاں تھیں۔ بھیڑیے باہر رک کر اس کے نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔

کچھوے نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنی راہ پر ہو لیا۔
شام کو واپس آتے ہوئے وہ ان جھاڑیوں کی طرف جا نکلا۔

اس نے دیکھا کہ بھیڑیے جا چکے ہیں لیکن خرگوش اسی طرح جھاڑیوں میں چھپا بیٹھا ہے۔
”باہر آجاؤ خطرہ ٹل چکا ہے۔“ اس نے کہا۔

خرگوش ڈرتے ڈرتے باہر آگیا۔ اس کی بھوک و پیاس سے بری حالت تھی۔
کانٹے لگنے سے زخم بھی آگئے تھے، وہ لنگڑا کر بھی چل رہا تھا اور سخت خوفزدہ تھا۔

”ڈرو نہیں، بھیڑیوں کو شکار مل گیا ہے، اب وہ اِدھر نہیں آئیں گے۔“ کچھوا بولا۔
خرگوش خاموشی سے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چل پڑا، اب اُس کی ساری تیزی و طراری ہوا ہو گئی تھی۔

”تم نے اپنی بے وقوفی سے تکلیف اٹھائی، اگر تم خاموش رہتے تو یہ نہ ہوتا۔“
خرگوش اب بھی خاموش رہا۔

”سیانوں کا قول ہے: ایک چپ…… سو سکھ، شاید تم نے کبھی سنا ہو۔“
خرگوش نے اثبات میں گردن ہلائی۔

”آج تم نے اس کا عملی سبق بھی لے لیا۔ ایسا ہی ایک سبق میرے پڑ دادا نے تمھارے پڑ دادا کو بھی دیا تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم لوگ تجربوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔ خیر اگر تم میں ذرا بھی عقل ہے تو آج کے واقعہ کو کبھی نہیں بھولو گے۔“
کچھوے نے کہا۔

خرگوش نے شرمندگی سے گردن ہلائی۔ اُس کا علاقہ آگیا تھا وہ کچھوے سے ہاتھ ملا کر اپنے بھٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
٭٭٭