افغان طالبان نجی گروہ کی بجائے ریاستی کردار ادا کریں

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ طالبان رژیم کا یہ دعویٰ کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں، اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کریں، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے، افغان حکومت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، صوبوں میں گھوم رہی ہوں تو انہیں روکنا کس کی ذمہ داری ہے، پاک افغان تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سیکورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے، خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے۔

سیکورٹی اور سلامتی ایک ایسا بنیادی اصول ہے جس پر نہ پاکستان، نہ دنیا کا کوئی اور ملک اور نہ ہی کوئی باشعور فرد سمجھوتا کرسکتا ہے۔ ریاستوں کی بنیاد امن اور داخلی استحکام پر رکھی جاتی ہے اور کوئی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک افراد اور اداروں کو اپنی جان، مال اور عزت کے تحفظ کا یقین حاصل نہ ہو۔ اگرچہ دنیا آج جدید ٹیکنالوجی، معاشی سرگرمیوں اور عالمی تعاون کے نئے ادوار میں داخل ہو چکی ہے، مگر سلامتی کی اہمیت وہی ہے جو قدیم زمانوں میں تھی۔ اس کے بغیر نہ معیشت پھل سکتی ہے، نہ تجارت بڑھ سکتی ہے، نہ سیاسی نظام مستحکم رہ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم خود کو محفوظ اور مطمئن متصور کرسکتی ہے۔پاکستان طویل عرصے سے بے امنی کی جس دلدل میں پھنسا ہے، اس کی جڑیں افغانستان کے اندر ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود یا تو نظریں چرا رہی ہے یا جان بوجھ کر ان عناصر کو شہ دے رہی ہے جو سرحد پار آکر پاکستان میں خون بہاتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو واقعی پاکستان سے ہجرت کرکے گئے ہیں اور وہ پاکستانی ہیں تو انہیں افغانستان میں مسلح پناہ گاہیں فراہم کرنے کی بجائے پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے۔ یہ کیسے مہمان ہیں جواسلحہ اٹھائیں اور پڑوسی ملک کی سرزمین پر آکر لوگوں کو قتل کریں؟

جیسا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا سرحدی علاقوں میں دہشت گردی، منشیات، اسلحہ اور اسمگلنگ کا جو مضبوط گٹھ جوڑ ہے، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے، گزشتہ دنوں افغان سرزمین سے ہی تاجکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی اس کی واضح مثال ہے۔ افغان سرزمین پر دہشت گردی کے مراکز کی موجودی کوئی ڈھکی چھپی بات یا محض الزام نہیں۔ عالمی ادارے بھی اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان دوبارہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اور ادارہ موجودہ افغان حکومت کے چال چلن پر بھروسا کرنے اور اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس سلسلے میں سب بہت محتاط قدم اٹھا رہے ہیں اور قریب سے افغان حکومت کے طرز عمل کو مانیٹر کر رہے ہیں، لیکن افسوس طالبان حکومت نے نہ صرف اس معاملے کوکوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جب تک سرحد کے دونوں جانب یکساں سطح پر امن کی خواہش نہ ہو، تب تک پائیدار استحکام ممکن نہیں۔ تجارت اور خونریزی اور بے امنی اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاک افغان تجارت کو بھی سیکورٹی سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کی اولین ذمے داری اپنے عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے۔ جب سرحد پار سے مسلح گروہ آکر قتل و غارت کریں، سیکورٹی فورسز پر حملے کریں، شہریوں کو نشانہ بنائیں اور پھر واپس جا کر پناہ بھی حاصل کرلیں تو کیسے توقع رکھی جائے کہ پاکستان آنکھیں بند کر کے تجارت کو اسی طرح جاری رکھے؟ یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مستقبل کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ خطے کی ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ اور مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں۔

بدقسمتی سے افغانستان میں موجود ایک ایسا گروہ آج بھی ہے جسے امن، استحکام اور سکون راس نہیں آتا۔ پانچ دہائیوں کی جنگ نے ان عناصر کو شدید نفسیاتی اور سماجی عدم توازن کا شکار کردیا ہے۔ جن لوگوں نے زندگی خون، بارود اور خانہ جنگی میں گزاری ہو، ان کے نزدیک امن کوئی نعمت نہیں بلکہ ایک اجنبی کیفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی آمد کے بعد بھی افغانستان میں امن کی فضا قائم نہ ہوسکی۔ جو گروہ اس عرصے میں جنگ کے ماحول میں پلا بڑھا، وہ آج بھی طاقت اور غلبے کا اظہار بندوق کے ذریعے ہی کرنا چاہتا ہے۔ انہیں نہ اپنے عوام کے مستقبل کی فکر ہے، نہ پڑوسی ممالک کی سلامتی کا احترام۔ ایسے عناصر کی وجہ سے ہی آج پاکستان اور افغانستان ہتھیار بند ہوکر آمنے سامنے کھڑے ہیں، مگر بدقسمتی سے طالبان رژیم کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے مذاکرات کیے، وفود بھیجے، علماء اور مشائخ کو شامل کیا، سفارتی ذرائع آزمایا، حتیٰ کہ عالمی برادری کو بھی اعتماد میں لیا، مگر طالبان حکومت مسلسل بدترین بے حسی اور ہٹ دھرمی پر کاربند ہے۔

پاکستان کا مطالبہ کوئی غیر معمولی یا غیر قانونی نہیں۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے درست کہا ہے کہ پاکستان کیلئے افغانستان میں گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں مگر پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناتے ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتا جو خطے میں مزید بگاڑ پیدا کرے۔ پاکستان کا صبر اور تحمل اپنی جگہ، مگر اس کا غلط مفہوم لینا طالبان حکومت کی بڑی بھول ہے۔ اگر افغان سرزمین بدستور پاکستان دشمن گروہوں کے قبضے میں رہی اور طالبان انتظامیہ نے اس صورتحال کو بدلنے سے انکار کیا تو پھر پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ اگر حالات مزید خراب ہوئے تو اس کے تمام تر نتائج کی ذمہ داری طالبان حکومت کی ناقص پالیسی، بے تدبیری، ضد اور ہٹ دھرمی پر عائد ہوگی۔ طالبان رژیم کو سمجھنا ہوگا کہ ریاستیں جذبات سے نہیں چلتی، اصولوں سے چلتی ہیں اور اصول یہ ہے کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا۔ طالبان حکومت کو اب نجی گروہ کی طرح بروئے کار آنے کی بجائے ایک ریاست کے سنجیدہ تقاضوں اور عالمی ذمے داریوں کو اپنانے کی طرف بڑھنا ہوگا۔