روایت کیا ہے؟ یہ دراصل دین کا وہ زندہ، متواتر اور متصل فہم ہے جو چودہ سو سال سے ہر عہد، ہر خطے اور ہر علمی دبستان میں منتقل ہوتا آیا ہے۔ قرآن، سنت و حدیث، فہمِ صحابہ اور اجماعِ امت سے تشکیل پانے والا فہم روایت کا جوہر ہے۔ یہ جوہر کوئی جامداور متحجرشے نہیں بلکہ یہ مسلسل، متواتر، زندہ، حرکت پذیراور بیدار مغز علمی سرمایہ ہے۔ ہر عہد کے مفسرین جیسے ابن عباس، طبری، زمخشری، بیضاوی، قرطبی، رازی اور ابنِ کثیر؛ ہر زمانے کے محدثین جیسے امام بخاری، مسلم، ابنِ حبان، نسائی، دارمی، طحاوی، ہر عہد کے فقہا جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ہرعہد کے کلام و عقائد کے بڑے ائمہ جیسے امام ماتریدی، ابو الحسن اشعری اور امام غزالی، سب اسی چودہ سو سالہ روایت کے امین و شارح ہیں۔ واعظین اور صوفیاء کی پوری تاریخ بھی اسی روایت کی خوشبو سے مہکتی ہے۔ گویا دین کا جو مجموعی علمی شعور امت نے صدیوں میں تیار کیا، وہی ”روایت” ہے۔
روایت فرد نہیں، اجتماعیت کا فہم ہے۔ روایت ایک صدی نہیں چودہ صدیوں کی تراث ہے۔ یہ وہ عظیم اجتماعی فہم ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا اس امت کی مجموعی ذہنی اور روحانی میراث بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت کا فہم انفرادی ذوق نہیں اجتماعیت، تواتر، تحقیق اور تسلسل پر قائم ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو ہر عہد میں انفرادی تشریحات، ذوقی خطابات اور تجددد پسندانہ تفردات بھی ملیں گے۔ یہ ذوق اور تفراد خواہ کتنا ہی پرکشش کیوں نہ روایت نہیں بن سکتا۔
روایت کی اس تعریف کے بعد آپ دیکھیے جاوید احمد غامدی صاحب کا فہم دین ایک بالکل مختلف اور نیا مظہر ہے۔ اس فہم دین کے اصول وہ نہیں جو سنت و حدیث اور فہم صحابہ سے شروع ہو کر تابعین، تبع تابعین اور امت کے صدیوں کے فہم کے نتیجے میں پروان چڑھے ہوں، بلکہ اس فہم کے اصولوں کی بنیاد ڈیڑھ سو سال قبل امام حمید الدین فراہی نے رکھی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ امام فراہی جلیل القدر عالم تھے مگر قرآن فہمی خصوصاً ”نظمِ قرآن” کے حوالے سے انہوں نے ایک ایسا اسلوب پیش کیا جو روایتی مفسرین کے طریق کار سے ہٹ کر ایک نئے ذوق اور نئے زاویے پر کھڑا تھا۔ مولانا فراہی کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نے ان اصولوں کو باقاعدہ منہجی قالب میں ڈھال دیا۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کو اس نظم کے اصولوں پر کھڑا کرتے ہوئے فہم دین کا ایک نیا ورژن تیار کیا۔ یہ ورژن پرکشش سہی مگر اپنی بنیاد میں روایت سے مختلف تھا۔ غامدی صاحب تک آتے آتے یہ نیا اسلوب فہم دین کی ایک ”متوازی روایت” بن گیا۔ ایسی روایت جو چودہ سو سالہ مرکزی دھارے کے مقابل کھڑی تھی اور جس کا نعرہ تھا: ”ہمارے لیے قرآن اصل ہے۔ ہم حدیث، سنت اور پوری دینی روایت کوقرآن کی روشنی میں سمجھیں گے۔”
بظاہر یہ نعرہ نہایت خوبصورت اور دل موہ لینے والا ہے۔ مسئلہ مگر نعرے میں نہیں اس کی تعبیر میں ہے۔ یہ وہی نعرہ ہے جس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہلِ خوارج کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ”کلمةُ حقٍّ اُریدَ بِہا الباطل” یعنی نعرہ بظاہر بالکل درست ہے مگر اس سے جو نتائج نکالے جا رہے ہیں وہ باطل ہیں۔ یہی صورتحال مکتبِ غامدی کے نعرے کی ہے۔ قرآن کو اصل ماننا بدیہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ”اصل” سے مراد کیا ہے؟ روایت کا اصول یہ ہے کہ قرآن اصولوں کا مجموعہ ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے حدیث و سنت، فہم صحابہ اور اجماع امت بنیادی پیمانے ہیں۔ قرآن اور سنت ایک ہی وحی کے دو رخ ہیں، ایک متن ہے اور دوسرا اس متن کی قولی وعملی وضاحت۔ صحابہ اس متن کے پہلے شاگرد ہیں اور اجماع امت اس کی تاریخی سند۔ یہی وہ میزان ہے جس پر چودہ صدیوں سے اس امت کا مذہبی شعور قائم ہے۔
لیکن مکتبِ غامدی ”اصل” کی نئی تعبیر پیش کرکے پورے توازن کو بدل دیتا ہے۔ ان کے نزدیک قرآن اصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دین کی جو تفصیلات حدیث، سنت، صحابہ یا امت کے اجماعی فہم کے ذریعے منتقل ہوئیں ہیں وہ امت پر حجت نہیں۔ ہاں، غامدی صاحب قرآن سے جو دین اپنی عقل اور فطرت کے مطابق سمجھیں وہ امت کے لیے حجت ہے۔ گویا حدیث و سنت اور فہم صحابہ کی تشریحی حیثیت جزوی قبول، جزوی رد ہے جبکہ ان کی اپنی عقل اور اپنا فہم مکمل طور پرحجت ہے۔ یہاں سے اصل فرق اور تضاد واضح ہوتا ہے۔ روایت کا مطالبہ ہے کہ قرآن کو سنت، حدیث، فہم صحاب اور امت کے اجتماعی تعامل کے تناظر میں سمجھا جائے جبکہ مکتب غامدی کا ماننا ہے کہ قرآن کو ان سب بنیادی ذرائع کو نظر انداز کرکے بھی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اس طرح سمجھنا لازم ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روایت سے ہٹ کر ایک فرد کا فہم، اس کا تفرد اور اس کی عقل معیار بن جاتی ہے۔
جب ہم غامدی مکتب فکر کو اس کے مذکورہ اصول کی روشنی میں حدیث پر پڑنے والی زد اور انکار حدیث کا در کھلنے کی نشاہدی کرتے ہیں تو جواب میں ہمیں حدیث سے تعامل کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جیسے اپنے کالمز میں خورشید ندیم صاحب نے پیش کی۔ یہ سراسر خلط مبحث اور الفاظ کا داؤ پیچ ہے، مثلاً غامدی مکتب فکر عبادات جیسے بنیادی احکام میں تو حدیث و سنت کو مان لیتا ہے مگر معاشرت، سیاست، حدود، اجتماعی زندگی یا ان معاملات میں جہاں حدیث یا فہم صحابہ ان کے ”اصولِ فطرت” یا اصولِ عقل سے ٹکراتا ہے، وہاں یہ روایت کو رد کر دیتا ہے۔ اس طرح اس مکتب فکر کی تفہیم کے مطابق دین آدھا روایت پر کھڑا ہوتا ہے اور آدھا عقل پر۔ یہ وہ تقسیم ہے جو ایک مذہبی نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔
دین ایک آسمانی امانت ہے، تجربہ گاہ نہیں۔ روایت ایک اجتماعی سند ہے، انفرادی ذوق نہیں۔ روایت جمود نہیں، تسلسل ہے۔ روایت پابندی نہیں، امت کا اجتماعی شعور ہے۔ وہ مسلسل شعور جس پر دین کی عمارت کھڑی ہے۔ جب اس عمارت کے ستون یعنی حدیث، سنت، فہم صحابہ اور اجماع امت کو جزوی طور پر بھی کمزور کیا جائے گا تو پوری عمارت لرز اٹھے گی۔ یہی وجہ ہے کہ روایت نے ہمیشہ ایسے انفرادی رجحانات کو قبول نہیں کیا جو امت کے متواتر فہم کے خلاف تھے۔ وہ رجحانات اپنے عہد کی حد تک تو زندہ رہے مگر اپنے عہد سے آگے دو چار سال کی زندگی بھی انہیں نصیب نہیں ہوئی۔
روایت کا منہج آزمودہ، مربوط اور صدیوں کی جانچ پر کھڑا ہے۔ اس کے برعکس انفرادی فہم خواہ کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو، اس وقت تک قابل اعتماد نہیں بنتا جب تک امت اسے قبول نہ کر لے۔ غامدی مکتب فکر ایک علمی تعبیر توہو سکتا ہے مگر اسے روایت کہنا چودہ سو سالہ علمی میراث کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اسے روایت میں شامل کرنیکا مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے آج یہ بات پوری شرح ووضاحت سے دہرانے کی ضرورت ہے کہ دین کا اصل فہم وہی ہے جو چودہ سو سال سے امت کے اجتماعی شعور میں متواتر چلا آ رہا ہے۔ اس اجتماعی شعور اور اجماعی سفرنے دین کو محفوظ رکھا ہے۔ جو بھی تعبیر اس سفر سے الگ ہوگی وہ چاہے کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو وہ روایت نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی کوئی معقول آدمی اسے روایت کہنے اور روایت میں شامل کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

