عالمِ اسلام کا اثاثہ، مفتی محمد تقی عثمانی

مفتی تقی عثمانی صاحب کا میں سگا بھتیجا ہوں اور یہ نسبت میرے لیے ہمیشہ سے باعثِ فخر رہی ہے۔ بھتیجا بھی وہ جسے کم عمری میں والد گرامی کے انتقال کے بعد اپنے چچا کی سرپرستی، محبت، شفقت، تربیت اور رہنمائی مسلسل حاصل رہی ہے لیکن یہ قربت چچا جان پر کچھ لکھنے کو آسان نہیں، بہت مشکل بناتی ہے۔ اپنے محبوب چچا جان جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی پر کوئی تحریر لکھنا میرے لیے ہمیشہ سے بہت مشکل رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان کیلئے کیا لکھوں۔ میں انہی کالموں میں بہت سے سیاستدانوں، فلاحی اداروں، شاعروں، ادبی شخصیتوں اور ان کے کاموں پر تحریریں لکھتا رہا ہوں۔ اتنی تحریریں کہ دو تین کتابیں بن سکتی ہیں۔ ادبی شخصیات کو چھوڑ کر ان سب ناموریا گمنام لوگوں میں اکثر سے کسی طرح کا تعلق تو دور کی بات، میری کوئی ایک ملاقات بھی نہیں ہے۔ اس لیے اگر کوئی بھتیجا اپنے نامور چچا پر کوئی تحریر لکھتا ہے تو اسے محض رشتے داری کے خانے میں ڈال دینا زیادتی ہو گی۔ اگر کسی بھی ملاقات کے بغیر کسی کی شخصیت کے متاثر کن پہلو پر لکھا جا سکتا ہے تو اس شخصیت پر کیوں نہیں، جس کی چھاوں میں عمر کے کم وبیش چھ عشرے گزرے ہوں۔ اتنے قریب سے دیکھا ہو جس کی کروڑوں انسان محض خواہش ہی کرسکتے ہیں۔ وہ محبت اور دعائیں بھی ان سے سمیٹی ہوں جس کی ان گنت انسان محض حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ تربیت اور سرزنش کے ذائقے بھی بہت چکھے ہوئے ہوں۔

عم مکرم جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی کو اردن کے مؤقر ادارے نے اس سال دوبارہ نامور اور مؤثر ترین 500مسلم شخصیات میں دوسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔ گزشتہ بہت سالوں سے مفتی محمد تقی عثمانی ان شخصیات میں پہلے 10لوگوں میں شامل ہوتے ہیں اور یاد پڑتا ہے کہ چند سال پہلے بھی انہیں اسی ادارے نے پہلے نمبر پر مؤثر ترین مسلم شخصیت قرار دیا تھا۔ اس سال قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی پہلے نمبر پر، جناب مولانا محمد تقی عثمانی دوسرے نمبر پر، شیخ الحبیب عمر بن حافظ (یمن) تیسرے نمبر پر، سید علی خامنہ ای (ایران) چوتھے نمبر پر، شاہ عبداللہ ثانی (اردن) پانچویں نمبر پر، ڈاکٹر احمد محمد الطیب (مصر) چھٹے نمبر پر، صدر رجیب طیب اردوان (ترکیہ) ساتویں نمبر پر، شاہ سلمان بن عبد العزیز آٹھویں نمبر پر، شیخ محمد بن زید النہیان (متحدہ عرب امارات) نویں نمبر پر اور صدر انور ابراہیم (ملائیشیا) دسویں نمبر پر ہیں۔ یہ ترتیب ہر سال بدلتی رہی ہے لیکن کچھ نام ہمیشہ سرفہرست رہتے ہیں جن میں جناب مفتی محمد تقی عثمانی کا نام بھی ہے۔ پاکستان سے وزیراعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، جناب عمران خان سمیت کئی اور شخصیات بھی ان 500مؤثر ترین شخصیات میں شمار کی گئی ہیں۔ دیگر ممالک کے سربراہان اور اہلِ علم بھی اس فہرست میں موجود ہیں۔ اردن کے اس ادارے کی مجلس ادارت میں نامور محقق شامل ہیں جو سیاسیات، علم وتحقیق، سائنس، ادب، عسکریات، دعوت وتبلیغ سمیت متعدد شعبوں کے نام دنیا بھر سے چنتے ہیں اور اپنے معیارات پر پرکھ کر ان کے بااثر ہونے کے درجے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ معیارات کیا ہیں اور درجہ بندی کس بنیاد پر کی جاتی ہے، یہ الگ موضوع ہے جو اس ادارے کے مجلدات میں تفصیل سے موجود ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس میں مسلک، زبان، ملک اور رنگ کے تعصبات شامل نہیں ہیں۔ یہ غیر تجارتی ادارہ ہے اور The Royal Islamic Strategic Studies Centre کی ویب سائٹ پر یہ تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایک پاکستانی کا اس طرح عالم اسلام میں نمایاں ترین جگہ پاتے رہنا ہم سب پاکستانیوں کے لیے باعثِ فخر ہے لیکن اس میں سیکھنے کی اصل بات کی طرف توجہ زیادہ ضروری ہے۔ فہرست میں دنیاوی اعتبار سے بڑے بڑے نام ہیں۔ بادشاہ، صدور، وزرائے اعظم، سربراہِ مملکت، کھرب پتی، طاقتور افواج کے سربراہان وغیرہ وغیرہ۔ اسی دنیا میں جہاں دولت اور طاقت کی حکمرانی کا کلیہ ایسا ہے کہ ہر شخص سمجھتا ہے کہ طاقت اور دولت کے بغیر عزت نہیں مل سکتی، یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک درویش صفت، سادہ لباس عالم دین بادشاہوں سے زیادہ دلوں پر حکمرانی کرتا ہے؟ یہ کیونکر ہو سکا کہ ان کھرب پتیوں کے مقابلے میں، جن کی تجوریاں بھی ان کے خزانوں کی گنتی پوری طرح نہیں کر سکتیں، ایک سادہ ساقلم رکھنے والے کے لفظ زیادہ طاقتور ہیں؟ ان طاقتوروں کے درمیان جن کے ایک حکم سے پوری دنیا تہس نہس ہو سکتی ہے، ایک لفظ بولنے اور لکھنے والے کا حکم زیادہ چلتا ہے۔ جگر نے کہا تھا ”جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ” دلوں پر راج کرنے والے ہی اصل شہنشاہ ہوا کرتے ہیں۔ یہی اصل بادشاہت اور یہی اصل حکمرانی۔ اس زمانے میں جناب مفتی محمد تقی عثمانی علم واعتدال کی اس طاقت کا نام ہیں جو نامور اور گمنام، بڑے اور چھوٹے ہر شخص کو مسخر کیا کرتی ہے اور اس دور میں اسے علم اور خلوص کا معجزہ اور کرامت سمجھنا چاہیے جن سے لوگوں کا اعتبار اْٹھ چکا تھا۔ سچائی اور خیر خواہی کی طاقت دیکھنی ہو تو اس مثال میں دیکھی جا سکتی ہے۔

دیکھنے اور سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے پاس کون سا عہدہ ہے؟ کسی اور ملک کا چھوڑیں، اپنے ملک کا بھی؟ کس حکومتی ادارے کی سربراہی ہے؟ کس سیاسی جماعت سے ان کی وابستگی ہے؟ کس حکومت نے ان کی تشہیر اور لابنگ کی ہے؟ کس صدر اور وزیراعظم سے ان کی مسلسل ملاقاتیں اور قریبی تعلقات ہیں؟ کس سربراہ سے انہوں نے کسی بھی قسم کا کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا ہے؟ پاکستان تو ان کا اپنا ملک ہے لیکن عرب ممالک جہاں بڑے بڑے بااثر حلقوں میں ان کا نہایت احترام ہے، وہاں کے سربراہان سے ذاتی مراسم بنا کر قربت حاصل کر لینا ان کے لیے مشکل نہیں تھا؟ لیکن انہوں نے مقرب کا منصب حاصل کرنے کے بجائے خیر خواہ درویش کا عہدہ اپنایا ہے اور یہ منصب کسی وزیر، مشیر، درباری اور مقرب سے کہیں بالا ہے۔ وہ مقرب اور درباری بن کر ان حکمرانوں، سربراہوں کے طرزِ عمل اور طریقہ کار پر تنقید کیسے کرتے جو وہ گفتگو اور تقاریر کے ذریعے مسلسل کرتے آئے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کی وکالت کیسے کرتے؟ وہ غزہ اور فلسطین کے المیے پر زوردار تقاریر اور ٹویٹس کیسے کرتے؟ وہ اس بے حسی اور زبانی کلامی احتجاج پر گریہ کیسے کرتے جس نے پاکستان اور عرب دنیا سمیت تمام مسلم ممالک کو مسلسل جھنجھوڑا ہے؟ مسلم علماء اور صوفیاء کی تاریخ میں مجھے سب سے قابل رشک گروہ وہ لگتا ہے جو ایک طرف بادشاہوں اور ان کے عہدوں، منصبوں سے دور رہا، دوسری طرف اس نے پوری دلسوزی اور خیر خواہی کے ساتھ مسلسل اصلاحِ احوال کی کوششیں جاری رکھیں۔ ان کوششوں کی برکت تاریخ میں سنہرے لفظوں میں رقم ہوئی۔ ابتدائی زمانوں میں حضرت رجا بن حیٰوة بھی ایک ایسے ہی فقیہ اور محدث بزرگ تھے جن کی کوششوں سے سلیمان بن عبدالملک کے تخت پر حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے صالح خلیفہ متمکن ہوئے۔ خود برصغیر ہی میں حضرت مجدد الف ثانی اور ان کے خلفا کی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد سے دین الٰہی والے اکبر اعظم کے تخت پر پے درپے ایسے بادشاہ آئے جن میں ہر آنے والا شہنشاہ پچھلے سے بہتر تھا۔ یہ راستہ دیگر طریقہ ہائے کار کی نسبت زیادہ کٹھن تھا۔ یہ پیغمبروں کا وہ راستہ ہے جس میں انہوں نے بادشاہوں کے دل بدلنے کی جدوجہد کی تھی۔ یہ قابل رشک، قابل تقلید راستہ جو نہایت دشوار بھی ہے، عم مکرم مفتی محمد تقی عثمانی کا بھی شیوہ رہا ہے۔ ان کے ذاتی تقویٰ اور نافع باعمل علم کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے بھی بہت طویل تحریر چاہیے۔ صرف عالم اسلام اور پاکستان کیلئے ان کی خدمات کو دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اور خاص طور پر پاکستان کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات بے شمار ہیں۔ میں ان حوالوں سے ان کاموں کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جن کے حوالے سے دنیا انہیں عالم اسلام اور پاکستان کا اثاثہ سمجھتی اور مانتی ہے۔ (جاری ہے)