حسب معمول افغانستان کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور بھی ناکام ہو گیا ہے۔ اب اس کے بعد کیا ہونا ہے اس کو جاننے کے لیے ہم پہلے افغان تاریخ اور افغان کردار کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی سب سے زیادہ جھڑپیں بھارت کی نسبت افغانستان سے ہوئی ہیں اور افغانستان بھارت کی نسبت پاکستان کے لیے زیادہ بڑا خطرہ رہا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے پہلی جھڑپ 30ستمبر 1950میں ہوئی جب افغان فوجی چمن سرحد پار کرکے 48کلو میٹر تک پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ جھڑپ چھ دن تک جاری رہی تھی اور چھ دن بعد افغان فوجی پسپا ہو کر واپس چلے گئے تھے۔ اس وقت کی افغان حکومت نے موجودہ رجیم کی طرح حیلے بہانوں سے اس جنگ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا کہ یہ افغان فوجی نہیں بلکہ مقامی ملیشیا تھے جو آزاد پشتونستان کے حامی تھے لیکن بعد میں ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوااور تحقیقات سے ثابت ہوا افغان حکومت براہ راست اس میں ملوث تھی۔ افغانستان کے ساتھ دوسری مڈبھیڑ 1955ء میں اس وقت ہوئی جب پاکستان نے قبائلی علاقہ جات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے انہیں ون یونٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کے افغان وزیر اعظم محمد داؤد خان کو ناگوار گزرا اور اس نے ریڈیو کابل پر پاکستان کے خلاف بیانات دینا شروع کردیے۔ کابل، قندھار اور جلال آباد میں پاکستان کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کی گئی اور سفارت خانوں سے پاکستان کا جھنڈا ہٹا کر پشتونستان کا جھنڈا لہرادیاگیا۔ کشیدگی زیادہ بڑھی تودونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیا۔ یہ تعلقات 1957تک منقطع رہے، صورت حال بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتی رہی۔ افغان وزیر اعظم محمد داؤد خان کے ایما پر افغان فوجیوں نے باجوڑ پاس پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان کو فضائی کارروائی کرنی پڑی۔ اس لڑائی میں افغان فوجی قبائلیوں کے روپ میں آئے تھے، ان کا خیال تھا کہ باجوڑ کے پشتون قبائل ان کی حمایت کریں گے اور اس طرح وہ مقامی علاقوں میں پشتونستان کا جھنڈا لہرا دیں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور افغان فوجیوں کو واپس جانا پڑا۔
اس کھلی بدعہدی اور بد نیتی کو دیکھتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے افغانستان سے تمام تجارتی گزرگاہیں بند کر دیں، دونوں ممالک کے تاجروں کی آمدو رفت رک گئی اور اور لینڈ لاکڈ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں معاشی بحران پیدا ہوگیا۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کی ایما پر حالات کو معمول پر لانے کے لیے ایران نے سہولت کاری کرتے ہوئے تہران میں ایک سہ فریقی اجلاس بلایا، اس اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی وزیر ثقافت سید قاسم شاہ، نائب وزیر خارجہ نوراحمد اعتمادی اور ایران میں افغانستان کے سفیر محمد عثمان نے کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی وزیرِ خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو اور تہران میں پاکستان کے سفیر اختر حسین نے کی۔ یہ مذاکرات کئی دن جاری رہے جس کے بعد 27مئی1963کو دونوں ملکوں کے وفود نے سفارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے پشتون قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ نرمی کا عندیہ دیا لیکن دوسری طرف سے پھر اسی بد عہدی کا ارتکاب ہوا اور افغان وزیر ثقافت نے ایران میں ہی کھڑے ہو کر بیان دے دیا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ پشتونستان ایک مردہ مسئلہ ہے جس میں جان ڈالنے کی افغانی خواہش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی سہولت کاری پر شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کو پہلے 1964میں اور بعد ازاں 1967میں امن کے نوبیل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا جس کی تفصیلات نوبیل پرائز کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ نامزدگی کے باوجود شاہ ایران کو امن کا نوبیل انعام نہیں مل سکا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تو بحال ہو ئے تھے مگر تنازع اپنی جگہ پر موجود تھا۔
تقسیمِ ہند کے بعد جب خطے کے سیاسی نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نیا مسلم ملک ابھر رہا تھا تو دنیا میں صرف دو ہی ملک تھے جنہیں اس کی سب سے زیادہ تکلیف تھی، ایک انڈیا اور دوسرا افغانستان۔ دونوں ملکوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بھارت تو پاکستان کا کھلا دشمن تھا اور اس کی وجہ مخالفت معلوم تھی لیکن افغانستان کے حکمران درون خانہ چیں بجبیں ہو رہے تھے۔ کابل میں بیٹھے افغان حکمرانوں نے پاکستان کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کے خلاف منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ کابل میں بیٹھ کر پشتون قوم پرستی کا ایک مصنوعی بیانیہ تشکیل دیا گیا اور اسے ریاستی طاقت کے زور پر پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا۔ افغان وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے تنظیم وجود میں لائی گئی جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اس کو کمزور کرنا اور اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان فوجیوں کی پاکستان کے سرحدی علاقوں کی طرف پیش قدمی تھا۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ خفیہ میٹنگز ہوتی تھیں جن میں افغان چیف آف اسٹاف سردار داؤد اور ان کے چچا اور وزیر دفاع سردار شاہ محمود پیش پیش ہوتے۔ یہ سلسلہ صرف خفیہ منصوبہ بندی تک محدود نہیں تھا بلکہ افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے خود لویہ جرگہ (افغان پارلیمنٹ) جیسے اعلیٰ ترین نمائندہ فورم میں کہا کہ افغان ریاست پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کر تی۔
یہ ہے اصل افغان کردار اور ماضی کے حقائق لیکن اگر یہ سب ماضی تک محدود رہتا تو ہم اسے ماضی کی غلطی کہہ کر بھلا دیتے مگر افسوس کہ یہ سوچ آج بھی زندہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل افغانستان کے صوبے بادغیس کے ڈپٹی گورنر مولوی غلام محمد احمدی کا بیٹا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف لڑنے آیا اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔ یہ واقعہ اس تسلسل کی تازہ مثال ہے کہ افغان حکومتی عہدیداروں کے قریبی رشتہ دار بھی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہیں۔ زابل میں فوجی پریڈ کے دوران سرکاری سطح پر وہ ترانہ چلایا گیا جس میں اعلان کیا گیا کہ ”ہم اپنا جھنڈا لاہور میں گاڑیں گے اور اسلام آباد کو بھسم کر دیں گے۔” یہ حالیہ دنوں ریاستی سطح پر پاکستان کے خلاف عسکری اور نظریاتی دشمنی کا برملااظہار ہے۔ ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد مختصر قصہ یہ ہے کہ افغانستان کی اصل تاریخ اور اصل افغان کردار ہمیشہ پاکستان کی مخالفت اور اس کے وجود کو تسلیم نہ کرنا ہے سوائے ان چند سالوں کے جن میں ملا محمد عمر نے اسلامی اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی حقیقت کو قبول کیا تھا۔

