گزشتہ سے پیوستہ:
نتیجہ اخذ کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے
اخباری اطلاعات کے مطابق عدیل اکبر کو ایک فون کال آئی (ممکنہ طور پر کسی بڑے افسر کی) اور اس کے بعد انہوں نے اپنے گارڈ سے پسٹل لے کر اپنے آپ پر گولی چلا دی۔ ممکن ہے بعض سوشل میڈیا حلقے اس میں کوئی سیاسی مداخلت ڈھونڈ لیں یا کسی بڑے کو مورد الزام ٹھہرانے کیلئے کوئی سازشی تھیوری گھڑ لی جائے۔ یہ بھی خبر دیکھی کہ عدیل اکبر کی پروموشن نہیں ہوئی تھی جبکہ اس کے بیچ کے لوگ پروموٹ ہوگئے، جس پر وہ ڈپریشن میں تھا۔ ممکن ہے کہ ایک آدھ دن میں کوئی رپورٹر اس کے گھریلو حالات اور نجی زندگی کے حوالے سے بھی کچھ سچ جھوٹ پر مبنی رپورٹ داغ دے۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز وغیرہ نے غلط، جعلی اور سنسنی خیز تھم نیل لگا کر ویوز کمانے کا گھٹیا طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ یہ درست نہیں، اس لیے کہ خودکشی کسی ایک فعل کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں کہ بیوی سے لڑائی ہوئی تو خودکشی کرلی گئی یا افسر کی ڈانٹ نے اتنا دلبرداشتہ کردیا۔ یہ انتہائی ردعمل ہے اوراس کے پیچھے بہت سے پیچیدہ عوامل شامل ہیں۔ ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی کے حوالے سے بھی براہ کرم کوئی سطحی، عجلت آمیز رائے نہیں دینی چاہیے۔
بعض المیے صرف واقعہ نہیں بلکہ علامت بھی ہیں
اس طرح کی خودکشی کے بعض واقعات اپنی نوعیت میں ایک المناک سانحہ تو ہوتے ہی ہیں، مگر دراصل وہ سسٹم میں موجود ایک بڑے خلا یا ناکامی کی علامت بھی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملازمین بہت بار مختلف عوامل سے تنگ ہوتے ہیں۔ کسی کو اپنے سنگدل باس سے شکوے ہیں تو کوئی اپنی نامہربان بیوی سے تنگ، کسی کو اپنے نالائق ماتحتوں سے مسائل ہیں تو فیملی پالیٹکس بھی بہت سوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ سب سے بڑھ کر کئی لوگ اپنے آپ سے ناخوش رہتے ہیں۔ انہیں اپنے اندر ایک خلا، ایک مہیب تنہائی اور بے مقصدیت نظر آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس دباو کو مینیج کرنے کا اگر ادارہ جاتی طریقہ ہو، ان مسائل میں گھرے لوگ کہیں سے پروفیشنل مدد لے سکیں تو شاید ان سانحات سے بچا جا سکے۔ باس، انچارج، سپروائزرز کا کردار بہت اہم اور کلیدی ہے۔ اگروہ ہمدردانہ انداز میں چیزوں کو دیکھنا سیکھیں، ماتحتوں اور ساتھیوں کو روبوٹ کی بجائے انسان سمجھیں، ان کے مسائل اور پریشانیوں کو اہمیت دیں تو بہت سی چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں۔ باس کو چاہیے کہ وہ اوپر سے آیا دباو اور غصہ نیچے اپنے ماتحت تک منتقل نہ کرے۔ غصے کی زنجیر بنانے کی بجائے کچھ چیزیں خود تک محدود کرنی چاہئیں۔ اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ناہمدرد، بے رحم اور اذیت پسند باس یا سینئرز کا بھی کہیں کوئی محاسبہ ہونا چاہیے۔ اگر سینئرز اپنے جونیئرز کے لیے سالانہ رپورٹ بناتے ہیں جس پر ان کے کیریئر کا انحصار ہوتا ہے تو کسی طریقے سے جونیئرز سے بھی فیڈبیک لینا چاہیے اور غیر حساس، بے رحم اور گھٹیا قسم کے سینئر افسران کے خلاف بھی ان کی فائل میں ریٹنگ لکھی جائے۔
پیشہ ورانہ دباو بہت بڑی حقیقت ہے۔ کئی پیشے ایسے ہیں جن میں وقت کی کوئی قید نہیں۔ دن رات ہی مصروف رہنا پڑتا ہے۔ ان میں پولیس اور فورسز کے لوگ سرفہرست ہیں۔ ویسے تو صحافی، ڈاکٹر حضرات کی شام اور رات ڈیوٹی پر گزرتی ہے۔ بینکرز حضرات کو بھی 10گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، تاہم ان سب سے زیادہ پولیس اور انتظامیہ (اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر وغیرہ) پر ہر وقت بے پناہ دباو رہتا ہے۔ انہیں اچھی تنخواہ، بڑی رہائش گاہ، سرکاری گاڑی اور رعب دبدبے والی ملازمت تو ملتی ہے، مگر اس کے عوض بہت کچھ قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ دباؤ والے پروفیشن میں نیند نہ آنا، ڈپریشن وغیرہ عام ہیں، اسی وجہ سے یہ لوگ بلڈ پریشر، شوگر اور ہارٹ اٹیک کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اسی دباو کی وجہ سے ان میں سے بہت سے اسموکنگ اور ممنوعہ مشروبات وغیرہ کی طرف بھی متوجہ ہوجاتے ہیں۔
سول سروس جوائن کرنے والے نوجوانوں کو یہ بات پہلے سے سمجھ لینی چاہیے۔ اگر وہ زبردست قسم کے پروفیشنل دباو کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تو نسبتاً آسان شعبوں جیسے کسٹم، انکم ٹیکس، آڈٹ اینڈ اکاونٹس، ریلوے وغیرہ کو ترجیح دیں۔ پاکستان میں پولیس کے شعبے کو سیاسی دباؤ کے علاوہ عوامی ردعمل، میڈیا کی تنقید وغیرہ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یوں ان کی زندگیاں مزید کٹھن ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے بعض پولیس افسران کہتے ہیں کہ یہ شعبہ حساس اور نرم دل لوگوں کے لیے نہیں اور ایک اچھے پولیس افسر کو عوام دوست ہونے کی بجائے خود کو ٹف بنانا چاہیے۔ ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ عوام سے انٹرایکشن رکھنے والے پروفیشن میں ہمدرد اور انسان دوست لوگ بھی ہونے چاہئیں اور حساس ہونا بھی کوئی خامی نہیں۔ اسی طرح پولیس افسران کو ٹف یعنی سخت کی بجائے اسٹرانگ یعنی مضبوط بننا چاہیے۔ جسمانی مضبوطی کے ساتھ ان کی ذہنی مضبوطی پر بھی کام کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ان اداروں میں اصلاحات اور ایسا بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو ماڈرن دنیا میں کیا جا رہا ہے۔

