اسلامی نظام کا مطلب۔ خدا انسان سے پیار کرتا ہے!

دنیا میں اسلام کو چھوڑ کر جتنے بھی نظام ہیں، ان میں باقی تمام چیزوں کی قدر ہے سوائے انسان کے۔ ان نظاموںکے تحت لوگ اشیائ، آسائش اور ذاتی عزت و وقا ر سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں جبکہ انسان سے بحیثیت انسان انہیںکوئی غرض نہیں ہوتی۔ فرد کس حال میں ہے، مر رہا ہے یا جی رہا ہے، اس کی ذاتی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں؟ وہ دکھ اور تکلیفوں کی کن حالتوں میں ہے؟ اس کے بیوی بچوں کے بنیادی تقاضوں کا کیا حال ہے؟ زرپرست نظام میں یہ تمام سوالات بے معنی ہیں۔

ان کے نزدیک دولت، عمارت، مشین، برقی آلات، اور زیبِ وزینت کی اشیاء ہی دراصل قابلِ قدر ہیں۔ اگر کسی زرپرست صنعت کار کی مشین میں اچانک کوئی خرابی پیدا ہو جائے اور اس کی مرمت میں بڑی رقم خرچ ہونے کا احتمال ہو، یا اگر اس کی فیکٹری کے پڑوس میں ایک اور عمارت فروخت ہو رہی ہو اور وہ اس سودے میں دلچسپی رکھتا ہو، یا اگر کسی جاگیر دار کی اچانک گرفتاری کا خطرہ پیدا ہو جائے، یا اگر بجلی کے لاکھوں روپے کے بقایا جات کے باعث اس کے کارخانے کی بجلی اچانک کاٹنے کا مرحلہ درپیش ہو تو ان ساری صورتوں میں مذکورہ صنعت کار و جاگیردار اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کہیں سے بھی رقم فراہم کر لے گا، خواہ اس کے پاس مسئلے کے حل کے لئے فوری رقم موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی رقم مہیا کرے گا اور اپنی گرفتاری سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں روپے کی قدر ومنزلت تو اتنی زیادہ ہے کہ اگر کہیں کوئی شخص خود سوزی کر رہا ہو، اس کے جسم میں آگ لگی ہو اور و ہ چیخ پکار کر رہا ہو، تب بھی فوٹو گرافر اپنے اخبار کے لیے جلتے ہوئے انسان کی یہ نادر تصویر ضرور اتارے گا تاکہ اخبار کی قدر و منزلت زیادہ ہو۔ حالانکہ اصولاً اسے انسانی لحاظ سے خود سوزی والے شخص کی جان بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اسی طرح یہ نظام عورت کو سرِ بازار عریاں رقص کرواتا ہے تاکہ زرپرست کی جیب میں سرخ و سبز نوٹ داخل ہو سکیں۔ اس وقت اسے عورت کی عزت وحرمت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

اس کے برعکس اگر انہی سرپرستوں کا کوئی ملازم اپنی ضرورتوں کے لئے کوئی رقم طلب کرے یا بونس، گریجویٹی اور طبی سہولیات کا تقاضا کرے جو ملازمت کے قوانین کے تحت اس کا حق ہیں اور اگر اس کا ملازم اپنے زر پرست سیٹھ سے اپنی بیٹی کی شادی یا اپنے بچے کے آپریشن کے لئے مالی امداد کی فدویانہ درخواست کرے، تب بھی اس کا ضمیر ٹس سے مس نہیں ہوگا۔ اس کے پاس اس وقت ایک ہی جواب ہوگا۔ ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ کمپنی نقصان میں جا رہی ہے اور ہماری پیداوار کم ہوگئی ہے ۔ اگر کوئی ملازم اپنی درخواست پر زیادہ ضد کرے تو وہ کھڑے کھڑے اسے ملازمت سے برخاست کر دے گا لیکن اگر دوسری طرف اس کا اپنا بچہ سخت بیمار ہو تو باوجود کمپنی کی خراب مالی حالت کے، وہ اپنے بیٹے کا علاج کسی بہترین اسپتال میں کروائے گا اور اگر اس کی اپنی بیٹی کی شادی کا مرحلہ درپیش ہوگا تو باوجود نام نہاد پیداواری کمی کے، وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کئی قسم کی ڈشوں کے درمیان کرے گا خواہ دوسری طرف اس کی کمپنی کے ملازم کی بیٹی کی شادی، دکھ اور تکلیف کے ساتھ سادے پانی ہی پرکیوں نہ انجام پائے۔ زرپرست نظام کی نمائندگی اس شعر سے بہت عمدہ ہوتی ہے کہ
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی غریب کی فاقوں سے مر گئی

زرپرست نظام میں زر ہی کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اخلاق، مذہبب، اسٹیٹس، دوستی، انسانیت، سب کچھ زر ہی کا نام ہیں۔ اس نظام میں دولت کے بغیر اخلاق، رواداری، اور انسانیت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ ان کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ہی ذات پر ختم ہوتا ہے۔
دوسری طرف زندگی گزارنے کا ایک نظام ہمیں دین اسلام عطا کرتا ہے جس میں حیرت انگیز طورپر مادی اشیاء و دولت کی بجائے انسان کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ یہ نظام انسان کی ذاتی قدر و منزلت کو مکمل طور پر اہمیت دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، چنانچہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس کے نزدیک مال و دولت اور اشیاء و آسائش پر جتنا حق اللہ کے ایک نیک بندے کا ہے، اتنا ہی حق اللہ تعالیٰ کے دوسرے بندے کا بھی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ دولت کی کس برادری سے تعلق رکھتا ہے؟ معاشرے میں تعمیر و ترقی لانے اور اسے خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے وہ تمام انسانوں کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ بجائے اس کے کہ چند افراد خوشحالی کے اعلی ترین مقام پر بیٹھے ہوں اور باقی تمام خدائی، ان کی زر خرید غلام بنی ہوئی ہو۔ اس کے نزدیک اگر انسان سنورے گا تو معاشرہ بھی سنورے گا۔ خدا تعالیٰ کے دیے ہوئے نظام میں انسان کو اس لئے بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ خدا انسان سے پیار کرتا ہے۔ دین اسلام کس طرح انسانوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے، آئیے اسے چند مثالوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں۔

ہمارا دین سودی نظام کی جڑ کاٹ کے رکھ د یتا ہے۔ اس لئے کہ وہ انسانوںکے مالی استحصال میں مدد دیتا ہے۔ سودی نظام میں سرمایہ ضرورت مندوں سے کھنچ کر گنتی کے چند افراد کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ قرض دار کی تکلیف دور ہوئی یا نہیں؟ قرض دار اگر قرضے کے باوجود دکھوں میں مبتلا ہے تب بھی سرمایہ دار کو صرف اپنے سرمائے سے دلچسپی ہوتی ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے سرمایہ دار بے رحم اور اخلاق سے عاری ہو جاتا ہے۔ اس کی جگہ اسلام نظام زکوٰة نافذ کرتا ہے جہاں سرمایہ، مالدار لوگوں سے نکل کر معاشرے کے عام افراد تک پہنچتا ہے اور دولت کی گردش عام ہوتی ہے۔ زکوٰة پھر زکوٰة وصول کنندہ کی اپنی ملکیت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی بھی خوش حالی کی لہر سے مستفید ہوتا ہے۔ زکوٰة دینے والے میں زرپرست کے برعکس عام آدمی کے لئے رحم اور بھائی چارگی کے جذبات ابھرتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام انسان کی بھلائی و فلاح و بہبود کی خاطر متعدد ہدایات دی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مزدورکو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا کوئی ملازم آگ اور دھویں سے گزر کر تمہارے لئے کھانا پکاکر لائے تو تمہیں چاہیے کہ اس کھانے میں اس ملازم کو بھی شریک کرو۔ مزدور اور ملازمین معاشرے کا نچلا طبقہ ہوتے ہیں لیکن خدا اسے مزدور اور ملازم نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص زمین والوں پر رحم کرتا ہے، آسمان والا خود اس پر رحم کرتا ہے۔ یہ تین مختصر حدیثیں انسان کی عظمت کا کھلے عام اعتراف اور اس کی اہمیت کا اظہار کر رہی ہیں۔ (جاری ہے)