بلدیاتی انتخابات، جمہوریت کا گمشدہ پہیہ

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔ ابھی چند ہی روز پہلے الیکشن کمیشن نے اسی سال دسمبر 2025میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں حلقہ بندیوں کے کام کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ صوبہ کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ طویل عرصے کے بعد صوبے میں بلدیاتی ادارے فعال ہوں گے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مقامی حکومتوں کے قیام سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہو گی اور لوگوں کے ذاتی و اجتماعی مسائل مقامی سطح پر حل ہوں گے۔

اب الیکشن کمیشن کے حالیہ اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے مزید چار ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔ اب یہ انتخابات بلدیاتی ایکٹ 2025کے تحت کرائے جائیں گے حالانکہ پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کا انعقاد بلدیاتی ایکٹ 2022کے تحت ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کو اس حوالے سے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بریف کیا کہ نیا ایکٹ اسمبلی سے پاس ہو چکا ہے، گورنر کے دستخط کے بعد یہ قانون بن گیا ہے جبکہ پرانا قانون منسوخ ہو چکا ہے۔

یہ صورتحال بظاہر قانونی عمل کا حصہ لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ جمہوری نظام کی جڑوں کو کمزور کرنے کا عمل ہے۔ کوئی انجانا خوف ہے جو مقتدرین کو بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں عوام کے پاس جانے روک رہا ہے حالانکہ بلدیاتی ادارے صوبائی و قومی اسمبلیوں کی نرسری سمجھے جاتے ہیں جہاں سے قیادت نچلی سطح سے ابھرتی ہے۔ مگر افسوس کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں یہ نظام مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی ادارے کسی نہ کسی حد تک فعال ہیں لیکن پنجاب میں ان کا وجود برسوں سے معطل ہے۔ سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں بلدیاتی نمائندوں کو ان کی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے مختلف قانونی موشگافیوں اور انتظامی تاویلات کے سہارے بلدیاتی انتخابات کو مسلسل مؤخر کیا جاتا رہا۔ عمران خان نے ولیج کونسلوں کا نظام لانے کا ڈھانچہ متعارف کروایا لیکن پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے وہ ہمیشہ خوف زدہ ہی رہے۔

عدالتوں کا کردار بھی اس باب میں حوصلہ افزا نہیں رہا۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی حکومتوں کے خاتمے کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے نہ صرف غیر معمولی دلچسپی دکھائی بلکہ ان انتخابات کو اپنی انا کا مسئلہ بھی بنا لیا تھا لیکن پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کے معاملے پر انہوں نے بھی مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تاخیر سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا خواب مسلسل ادھورا ہے۔ مقامی حکومتوں کے بغیر صوبے کے عوام بنیادی سہولتوں کے لیے بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہیں۔ گلیوں، محلوں میں صفائی، پانی، نکاسی اور مقامی ترقیاتی منصوبے سب کچھ مرکزیت کا شکار ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان وہ پل جو بلدیاتی نمائندے بن سکتے تھے، موجود ہی نہیں حالانکہ دیگر صوبوں میں یہ نظام فعال ہے۔

اس سلسلے میں مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو ہمیشہ سیاسی مفادات کے تابع رکھا گیا ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنی مرضی کا قانون بنا کر سابقہ قانون منسوخ کر دیا۔ کبھی ایکٹ 2013، کبھی 2019، پھر 2022اور اب 2025منظور کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بلدیاتی نظام عوامی خدمت کا نہیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ کا میدان بن چکا ہے۔ اگر پنجاب میں عوامی نمائندوں کو نچلی سطح پر اختیار نہ ملا تو جمہوریت محض ایک اوپر سے نیچے تک کا ڈھانچہ بن کر رہ جائے گی، جس میں عوام کا کردار صرف ووٹ دینے تک محدود ہوگا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن، عدالتیں اور حکومت تینوں مل کر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔ تاخیر جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل پانی، صفائی، تعلیم، صحت اور مقامی ترقی صرف مقامی نمائندوں کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ بدیاتی ادارے جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرتے ہیں اگر یہ جڑیں کمزور ہوں تو اوپر کا درخت کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو وہ کبھی بھی تیز ہواؤں، آندھیوں اور طوفانوں کا مقبلہ نہیں کر سکتا، وہ کبھی بھی گر سکتا ہے۔