7اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ حالیہ انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ مظالم غزہ کے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے ہیں ۔ اس عرصے میں جن دینی قوتوں نے اُن کے حق میں آواز بلند کی ، جلسے منعقد کیے، ریلیاں نکالیں، یہ وہ کم از کم حمایت تھی، جو ہم کرسکتے تھے ، بعض نے اپنے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے اعانت بھی کی ، یہ اُخوّتِ اسلامی کی بنا پر اُن کی ذمے داری تھی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک اُن کی عملی اور مادّی مدد کے لیے آگے بڑھتے ، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ آج یہی بے عملی اور مسلم سربراہانِ حکومت کا خوف امتِ مسلمہ کا المیہ ہے۔ بس قراردادیں پاس کرتے رہے ،بیانات دیتے رہے ، لفظی اور کسی حد تک عملی مدد بھی کرتے رہے ،اس عہدِ تنزّل میں یہ بھی غنیمت ہے۔ پاکستان اور ایران تو خود دشمنوں کے نشانے پر ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی اُس طرف سے صَرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ اب حالات کے جبر سے مجبور ہوکر حماس کی قیادت نے اپنے موقف سے تنزّل اختیار کرتے ہوئے ‘ٹرمپ امن منصوبے’ کو اپنے تحفظات کے ساتھ قبول کرلیا ہے اور غیرمسلّح ہونے کو بھی تسلیم کرلیا ہے ۔اَحسن بات یہ ہے کہ انھیں نئی فلسطینی ہیئتِ انتظامیہ کی دفاعی افواج اورداخلی سلامتی کے اداروں میں ضم کیا جائے۔اب حماس والے اسرائیل کو معاہدے پر قائم رکھنے کے لیے ضمانت بھی امریکی صدر ٹرمپ سے مانگ رہے ہیںاورعرب ومسلم حکمران جنگ بندی کرانے پر ٹرمپ کا شکریہ بھی والہانہ انداز میںادا کر رہے ہیں۔ یہ اس مصرعے کا مصداق ہے
وہی قتل کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
اہلِ غزہ کواس طویل اور صبر آزما جِدّوجہداور عدیم المثال قربانیوں کے نتیجے میں اگر کچھ حاصل ہوا ہے تو فقط یہ ہے :(١) فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر پوری قوت کے ساتھ دنیا کی نظروں کے سامنے اجاگر ہوا، (٢) اسرائیل کا مکروہ،قبیح اور ظالم چہرہ دنیا کے سامنے ایک بار پھر عیاں ہوا، (٣) عوامی سطح پر اُن کے حق میں دنیا بھر میں آوازیں بلند ہوئیں، (٤) دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں رائے دی۔ لیکن جن یورپی ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں بات کی وہ بھی حماس کے لیے کلمۂ خیر کہنے یا اُسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور تو چھوڑئیے!مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے بھی حماس کے خلاف بات کی، اسی طرح فلسطین کے اردگرد اور قرب وجوار میں واقع عرب ممالک نے بھی حماس کی حمایت نہیں کی ۔
ہم جیسے ممالک میں دینی اور ملّی جذبے کی حامل جماعتوں اورتنظیموں کی طرف سے فلسطین کے حق میںریلیاں نکالنے، کنونشن اور کانفرنسیں منعقد کرنے ،نیز بڑے جلسے اور اجتماعات منعقد کرنے کا مقصد اسرائیل اور اُس کے پشت پناہ امریکا کے خلاف نفرت کا اظہاراوراہلِ غزہ و فلسطین کے ساتھ ہمدردی اور اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے، ورنہ ہمارے اقدامات کا اسرائیل، امریکا اور اہلِ مغرب پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اس المیے میں یہ حقیقت ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی کہ تاحال امریکا کی ہمسر کوئی مادّی طاقت دنیا میں موجود ہے اور نہ کوئی اُس کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چین بلاشبہ تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اور ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت ہے ،لیکن ابھی وہ امریکا کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ امریکا کی طرح تنہا دنیا پر اپنے فیصلے مسلط کرسکتا ہے ، یہ بات تلخ سہی مگر ایک حقیقتِ ثابتہ ہے۔ یہی صورتِ حال روس کی ہے۔ روس اپنی تمام تر فوجی قوت کے باوجود یوکرین کو نیست ونابود نہیں کرسکا۔ یوکرین آج بھی قائم ودائم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے نیٹو کی شہ پر روس کو للکارا اور خود اپنے ملک کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ماضی میں سوویت یونین دنیا کے نقشے پر موجود تھا اور ایک سپر پاور تھی ،لیکن وہ 1967ء اور1973ء کی جنگ میں اسرائیل کے مقابل اپنے حلیف عربوں کی مدد نہ کرسکا۔ یہ سنتے رہے کہ روس کا بحری بیڑا بحرِ روم میں آگیا ہے اور وہ عملاً جنگ میں شریک ہوجائے گا، لیکن یہ خواہش ایساخواب رہی جوشرمندۂ تعبیر نہ ہوسکی۔ اُسی دور میں رئیس امروہوی نے ایک تاریخی قطعہ کہا تھا
امریکا و فرنگ کو چھیڑا کہاں گیا
جو اُن کو چھیڑتا، وہ تھپیڑا کہاں گیا
اے ارضِ مصر وشام! کہاں ہیں تیرے حلیف
اے بحرِ روم! روس کا وہ بیڑا کہاں گیا
امریکی صدر کی قیادت میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے،13اکتوبر کو مصر میں اس پرامریکی صدر ٹرمپ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی ،قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ترکیے کے صدر رجب طیب اردوان نے دستخط کیے۔ نیز اس موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف ،برطانوی وزیر اعظم کیراسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانویل مکرون اور جرمن چانسلر فریڈرک مرز سمیت تیس ممالک کے نمائندے شریک تھے ۔ہم اس حد تک اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے فلسطینیوں کے قتلِ ناحق ، نسل کشی اوربے قصور انسانی جانوں کے تلف ہونے کا سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ امن دائمی ہو، مگر اسرائیل سے عہد کی پاسداری کی کسی کو زیادہ توقع نہیں ہے ۔ لیکن یہ معاہدہ ہرگز جامع اور اطمینان بخش نہیں ہے۔اس میں صرف اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی گئی ہے جبکہ اہلِ فلسطین کے حقِ وطن کو سرے سے نظرانداز کردیا گیا ہے، یہ درست نہیں ہے ۔
اسی طرح اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو کھلا راستہ نہیں دینا چاہیے بلکہ عالمی عدالت یا حقوقِ انسانی کے کسی ٹرائبونل میں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے ، کیونکہ حالیہ تاریخ میں اسرائیل دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی کا مرتکب ہواہے اور امریکا اس قتلِ عام میں ان کا پشتیبان رہا بلکہ ان کو شَہ دیتا رہا ہے۔ پس امریکا کا یہ جرم ناقابلِ فراموش ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے”، لیکن کمزور پر اتنا جبر نہ کرو کہ آخرِکار وہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے پر مجبور ہوجائے، کیونکہ پھر آپ کی زندگی بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ اسی طرح غزہ کی بحالی اور تعمیرِنو کا جامع منصوبہ بھی اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ صرف امریکی صدر ٹرمپ کی تخیّلاتی بشارتیں ہیں جبکہ امریکی وزیرِخارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے: ” ہم کسی بات کی ضمانت نہیں دے سکتے”۔ یہ خطرے کی علامت ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ عالمی حکومتیں اور ادارے غزہ کے شہدا کے خاندانوں کی بحالی کے لیے باقاعدہ ایک پیکج بنائیں اور ایک اعلیٰ معیار کا دارُالکفالت بنائیں جہاں غزہ کے یتیم بچوں کی اعلیٰ معیار پر تعلیم و تربیت اور کفالت کا انتظام ہو۔ نیز غزہ کے تباہ شدہ شہری ڈھانچے اور رہائشی عمارات کی کم از کم مدت میں بحالی کے لیے ایک جامع پیکج بنایا جائے۔ خدشہ ہے کہ کہیں غزہ کو عالمی سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کے حوالے نہ کردیا جائے کہ وہ اسے دبئی کی طرح ایک عالمی عشرت کدے میں تبدیل کردیں اور غزہ کے مظلوم فلسطینی محروم رہیں۔
پاکستان کی فلاحی تنظیمیں جو غزہ کے مظلومین اور متاثرین کی مدد کی خواہاں ہیں، اب ان کے لیے خدمات انجام دینے کے مواقع پیدا ہونے کی امید ہے ، انھیں چاہیے کہ بحالی کا ایک سائنٹیفک نظام مرتب کر کے آپس میں اشتراکِ عمل کریں یا مختلف علاقے آپس میں تقسیم کردیں تاکہ ایک مربوط ومنظّم انداز میں متاثرین کی مدد ہوسکے۔ میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر مشتمل طبی کاروان وہاں لے جائے جائیں، جن میں آپریشن تھیٹر ،ٹیسٹنگ لیبارٹری ،ایکسرے اور سی ٹی اسکین وغیرہ کا بھی پورا انتظام ہو ۔ فزیشن کے ساتھ ساتھ سرجن بھی شامل ہوں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ پاکستان میں ایسے طبی ماہرین کی معتَد بہ تعداد موجود ہے جو رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کے لیے بخوشی آمادہ ہوں گے ۔اسی طرح اُن کے مزاج کے مطابق روٹیاں تیار کرنے کے لیے بڑے تنوربنائے جائیں، کیونکہ پکوانوں کے اعتبار سے اُن کے اورہمارے خطے کے ذوق میں فرق ہے۔ اسی طرح جو بے خانُماں ہیں، اُن کے لیے موسم کی مناسبت سے پناہ گاہیں بنائی جائیں، کیونکہ وہاں سردی شدید ہوتی ہے ۔