پیش آمدہ مسائل کی فکر اور حل

سات اکتوبر 2025ء کو جامع مسجد خالد بن ولید کھیالی گوجرانوالہ میں جمعیت اہل السنت والجماعت کے زیر اہتمام علمائے کرام کی علاقائی نشست سے خطاب کا موقع ملا، جس کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰة۔ آج کی گفتگو کے موضوع میں فکری جدوجہد اور فکری راہنمائی کے دو جملے شامل ہیں، اس لیے آج اسی پر کچھ عرض کروں گا کہ فکری جدوجہد کیا ہوتی ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو درپیش کچھ مسائل کا تذکرہ کرنا چاہوں گا تاکہ اس کا صحیح مطلب اور مقصد سمجھا جا سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تھے اور انبیائے کرام علیہم السلام پر وحی کا تسلسل تاحیات قائم رہتا ہے، چنانچہ فکری ضروریات کا اصل کام ان کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، جب وحی کا تسلسل ختم ہو جائے اور پیش آمدہ مسائل کا حل اس وقت کی علمی قیادت کو خود تلاش کرنا پڑے۔

سب سے پہلے سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس تحریک کا حوالہ دوں گا جو انہوں نے مختلف غزوات بالخصوص یمامہ کی جنگ میں حافظ قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبریں آنے پر قرآن کریم کو تحریری طور پر لکھوا کر محفوظ کرنے کے لیے کی تھی اور خلیفہ وقت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گزارش کی تھی کہ حفاظ اسی طرح شہید ہوتے رہے اور قرآن کریم تحریری طور پر محفوظ نہ کیا گیا تو قرآن کریم کی حفاظت کے حوالہ سے مشکلات پیش آ سکتی ہیں، اس لیے ہمیں قرآن کریم کو تحریری طور پر مرتب و محفوظ کرنے کا اہتمام کر لینا چاہیے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں اس سے اتفاق نہیں کیا اور فرمایا کہ اگر ضروری ہوتا تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے، جب انہوں نے نہیں کیا تو مجھے بھی اس کی ضرورت نظر نہیں آتی۔ اس پر دونوں بزرگوں میں خاصا مکالمہ ہوا، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد یہ تھا کہ ایک خطرہ محسوس ہو رہا ہے اور اس کے سدباب کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے، چنانچہ ان کی بار بار مراجعت پر حضرت ابوبکر صدیق مان گئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق کی طرح میرا بھی شرح صدر فرما دیا ہے، انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے کاتب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان کے ذمہ یہ کام لگا دیا اور انہوں نے قرآن کریم کا ایک نسخہ تحریری صورت میں مرتب کر دیا جو محفوظ کر لیا گیا۔ یہ ایک فکری تحریک تھی کہ ایک اہم ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو پوری نہ کی گئی تو بڑے نقصان کا خطرہ ہے، اس لیے اس کو بہرصورت پورا کرنا چاہیے، اس کی تفصیل بخاری شریف کی روایات میں موجود ہے، میں نے آپ کے سامنے صرف خلاصہ عرض کیا ہے۔

قرآن کریم ہی کے حوالے سے ایک اور واقعہ ذکر کروں گا جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے جو امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا۔ وہ فارس کے علاقے میں اپنے لشکر کے ساتھ سفر میں تھے اور ایک جگہ فجر کی نماز خیمے میں ادا کرنے کے بعد اپنے معمولات میں مصروف تھے کہ ساتھ والے خیمے میں جھگڑے کا شور سنا، اٹھ کر گئے تو دیکھا کہ دو شخص آپس میں گتھم گتھا ہیں (کادا ان یقتتلا) قریب تھا کہ ایک دوسرے کو مار ڈالتے۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور لڑائی کی وجہ پوچھی تو ایک نے کہا کہ میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا اور صحیح پڑھ رہا تھا مگر یہ مجھے غلط لقمے دے رہا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ یہ غلط پڑھ رہا تھا اور میں صحیح لقمہ دے رہا تھا۔ پہلا اپنی بات پر قائم تھا اور لقمہ قبول نہیں کر رہا تھا۔ پڑھنے والے نے کہا کہ میں نے قرآن کریم حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے پڑھا ہے، میں کیسے غلط پڑھ سکتا ہوں؟ لقمہ دینے والے نے کہا کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہوں، میں کیسے غلط لقمہ دے سکتا ہوں؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دونوں سے پڑھنے کے لیے کہا تو دونوں صحیح پڑھ رہے تھے، صرف قرات اور تلفظ کا فرق تھا جو ہر زبان میں ہوتا ہے۔ اہل زبان کے لیے یہ کوئی فرق نہیں ہوتا مگر دوسری زبان والوں کے ہاں اسے فرق سمجھا جاتا ہے۔ وہ دونوں فارسی زبان تھے، اپنے اپنے استاذ کی قرات اور تلفظ میں پڑھ رہے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دونوں سے فرمایا کہ دونوں ٹھیک پڑھ رہے ہو، آپس میں جھگڑا نہیں کرو۔اس واقعے کے بعد سیدنا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ قرات اور تلفظ کے فرق سے عربوں کو تو فرق نہیں پڑے گا مگر عجمی لوگ ایک ایک لفظ پر لڑیں گے اور مصیبت کھڑی ہو جائے گی، چنانچہ اس سفر سے مدینہ منورہ واپسی پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا اور عرض کیا کہ امیر المومنین! امت کو اس سے پہلے سنبھال لیجیے کہ یہ لوگ قرآن کریم کے ایک ایک لفظ پر لڑنے لگ جائیں۔سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کو محسوس کیا اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو طلب کر کے قرآن کریم کو ازسرنو لکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ قرآن کریم قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے، باقی لہجوں اور قراتوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے قرآن کریم کو قریش کی لغت پر ازسرنو لکھو، چنانچہ قرآن کریم قریش کی لغت پر لکھوا کر قریش کی لغت سے ہٹ کر جو الفاظ تھے وہ نکلوا دیے، پھر اس کو اسٹینڈرڈ نسخہ قرار دے کر اس کی کاپیاں کروا کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیں جس کی بنیاد پر یہ نسخہ ”مصحفِ عثمانی” کہلاتا ہے اور آج تک وہی نسخہ عالمِ اسلام میں رائج ہے۔

فکری جدوجہد کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ آنے والے خطرات و ضروریات کو محسوس کیا جائے اور ان کو پورا کرنے کی کوئی قابلِ عمل اور قابلِ قبول صورت نکالنے کی کوشش کی جائے۔ فکری ضروریات ہر دور میں پیش آتی رہی ہیں اور اکابر علمائے کرام ان ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالتے رہے ہیں جس کی تفصیل پھر کسی موقع پر عرض کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔