اسرائیل کا پھر امن پر وار،گاڑی پر حملہ،خواتین، بچوں سمیت11شہید

غزہ/تل ابیب/انقرہ:اسرائیل نے امن معاہدے کی دھجیاں اڑادیں،قابض فوج کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔اسرائیلی فوج نے غزہ میں طیارے سے گاڑی پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے11افراد شہید ہوگئے۔

شہداء میں سات بچے اور تین خواتین شامل ہیں۔رپورٹس کے مطابق اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والی گاڑی میں سوار افراد غزہ شہر کے علاقے الزیتون لوٹ رہے تھے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اسرائیل 28 افراد کو شہید کر چکا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک 67 ہزار 967 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 179 زخمی ہو چکے ہیں۔7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔حماس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

حماس نے صہیونی فوج کی جارحیت کو مصر میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قراردیدیا۔ دریں اثناء حماس نے امن معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ایک اور اسرائیلی مغوی کی لاش ریڈ کراس کے حوالے کردی۔

اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس سے لاش وصول کرنے کی تصدیق کردی، اسرائیلی حکام نے بتایا کہ اب تک 28 میں سے صرف 9 مغویوں کی لاشیں ملی ہیں۔دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ لاشیں ملبے تلے دبی ہیں لہٰذا واپسی میں وقت لگ سکتا ہے، لاشیں نکالنے کے لیے بھاری مشینری بھی درکار ہے۔

حماس نے گزشتہ روز اسرائیلی پابندیوں کو تباہ سرنگوں میں دفن یرغمالیوں کی لاشیں نکالنے میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔ادھر جارح اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس کو لاشوں کا علم ہے، تنظیم جان بوجھ کر حوالگی میں تاخیر کر رہی ہے۔

دوسری جانب حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ تنظیم غزہ میں عبوری مدت کے دوران سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ اس بات کی یقین دہانی نہیں کرا سکتی کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ گروپ غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پانچ سال تک کی جنگ بندی پر تیار ہے، بشرطیکہ فلسطینیوں کو مستقبل میں ریاست کے قیام کی امید دلائی جائے۔

جب نزال سے پوچھا گیا کہ آیا حماس ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوگی تو انہوں نے کہا کہ، میں ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دے سکتا۔ صاف بات ہے یہ اس منصوبے کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آپ جس غیر مسلح کرنے کے منصوبے کی بات کر رہے ہیں، وہ کیا ہے؟ اور ہتھیار کس کے حوالے کیے جائیں گے؟۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلے مرحلے کے مذاکرات میں اسلحے سے متعلق معاملات صرف حماس ہی نہیں بلکہ دیگر فلسطینی مسلح گروہوں کے بھی ہوں گے، لہٰذا اس پر وسیع تر فلسطینی اتفاقِ رائے درکار ہوگا۔حماس رہنما محمد نزال کا کہنا تھا کہ حماس کو یرغمالیوں کی باقی لاشوں کو رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ان کے مطابق حماس نے 28 میں سے کم از کم نو لاشیں واپس کر دی ہیں جبکہ مزید کی بازیابی میں تکنیکی مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ترکیہ یا امریکا اس تلاش میں مدد فراہم کریں گے۔نزال کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز جلد کیا جائے گا۔

حماس کے سینئر رہنما کا یہ موقف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے سے واضح اختلاف کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت آئندہ مذاکرات میں حماس کے ہتھیار جمع کرنے اور غزہ کے انتظامی امور پر غور کیا جانا ہے۔

ادھر اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر نے محمد نزال کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر قائم ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔اسرائیلی دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ حماس کو پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا تھا جو اس نے نہیں کیے۔

حماس کو معلوم ہے کہ ہمارے یرغمالیوں کی لاشیں کہاں ہیں۔ معاہدے کے مطابق حماس کو غیر مسلح ہونا ہے، کوئی اگر مگر نہیں۔ حماس کو 20 نکاتی منصوبے پر عمل کرنا ہوگا اور ان کے پاس وقت کم ہے۔

دریں اثناء ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہاہے کہ غزہ کی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق صدر رجب طیب اردوان نے ترک افریقہ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور ہم غزہ کیلئے پریشان ہیں جہاں کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور وہاں تعمیر نو کی ضرورت ہے۔

ترک صدر نے بتایا کہ ہم نے حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے لیے سخت کوششیں کی تھیں تاکہ غزہ میں امن قائم ہوسکے۔صدر طیب اردوان نے مزید کہا کہ وہ سوڈان میں جاری بحران پر پریشان ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہاں امن قائم ہوجائے۔

انہوں نے مغربی دنیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ برِاعظم افریقہ میں تنازعات اور خانہ جنگی ہو رہی ہے لیکن یہ کچھ نہیں کرتے۔

ادھر فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کا کہنا ہے کہ عملہ غزہ کے بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجنے کیلئے تیار ہے۔ادارے نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا کہ اس کے 8 ہزار تربیت یافتہ اساتذہ غزہ کے بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجنے کیلئے تیار ہیں۔

ایجنسی نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے دوبارہ باضابطہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔اسرائیلی حکومت نے اس سال کے اوائل میں اس ایجنسی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

علاوہ ازیںبین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیل کی جانب سے دائر کی گئی اس اپیل کو مسترد کر دیا جس میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے خلاف جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

عالمی اخبارات کی شہ سرخیاں بننے والا یہ فیصلہ عدالت کے اس فیصلے کے بعد آیا جس میں نومبر میں طے کیا گیا تھا کہ ایسی ”معقول وجوہات موجود ہیں”جن سے یہ باور ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اور گیلنٹ غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ”فوجداری طور پر ذمے دار”ہیں۔

عدالت نے اس سے قبل حماس کے تین سینئر رہنمائوں کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، مگر ان کی شہادت کے بعد وہ وارنٹ منسوخ کر دیے گئے۔نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف وارنٹوں کے اجرا نے اسرائیل اور امریکا میں شدید ردِ عمل کو جنم دیا۔

اس کے بعد امریکی حکومت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے کئی اعلیٰ عہدے داروں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ نیتن یاہو نے عدالت کے فیصلے کو ”یہود دشمنی پر مبنی”قرار دیا جبکہ اس وقت کے امریکی صدرجو بائیڈن نے اسے ”شرم ناک اقدام” کہا تھا۔

رواں سال مئی میں اسرائیل نے عدالت سے با ضابطہ طور پر درخواست کی تھی کہ وہ دونوں گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کر دے اس دوران عدالت یہ جائزہ لے رہی تھی کہ آیا اسے اس معاملے میں قانونی دائرہ اختیار حاصل بھی ہے یا نہیں۔

عدالت نے 16 جولائی کو اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ جاری کیا کہ جب تک عدالت کا دائرہ اختیار طے نہیں ہو جاتا، فی الحال گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کرنے کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں۔ ایک ہفتے بعد اسرائیل نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تاہم عدالت کے ججوں نے فیصلہ دیا کہ”جس نوعیت سے اسرائیل نے مقدمہ پیش کیا ہے، وہ اپیل کے دائرے میں نہیں آتا۔