پاک افغان تنازع: تین اہم سوالات

پاک بھارت جنگ اور کشیدگی کے بعد جہاں سرحدوں پر ہمارے جوان غیر معمولی شجاعت، عسکری مہارت اور پوری یکسوئی کے ساتھ مخالف کے دانت کھٹے کر رہے ہیں، وہاں سوشل میڈیا پر نجانے کیوں بعض حلقے غیر ضروری مباحث چھیڑتے ہوئے اس بہانے خواہ مخواہ کا کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔ مجھے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا شوق ہے اور نہ ہی میں کسی کے حوالے سے ایسی بڑی ججمنٹ دینا پسند کرتا ہوں۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ عین حالت جنگ میں کوئی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر قوم کو کنفیوز کرنے کی کوشش کرے تو دنیا بھر میں اسے ملک دشمنی ہی سمجھا جاتا ہے۔

پہلا کنفیوژن یہ پھیلایا گیا کہ پاکستان دراصل انڈیا کی جنگ لڑ رہا ہے اور چونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے بگرام ائیر بیس واپس لینے کا اعلان کیا ہے تو پاکستان افغانستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ درحقیقت امریکا کی جنگ ہے وغیرہ وغیرہ۔ نرم سے نرم الفاظ میں اس دلیل کو نہایت بیکار، فضول اور پوچ ہی کہا جا سکتا ہے۔ امریکا بگرام ائیر بیس واپس لے یا نہ لے، یہ اس کا اور افغانستان کا معاملہ ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ خبریں چلتی رہی ہیں کہ طالبان حکومت ڈیڑھ دو ارب ڈالر مانگ رہی ہے اور امریکی صرف تیس کروڑ ڈالر پر ٹرخانا چاہتے ہیں توبگرام بیس نہ دئیے جانے کی ایک رکاوٹ شاید یہ ہے۔ افغان طالبان خیر اس کی تردید کرتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی بات ٹھیک ہو اور عالمی میڈیا میں غلط رپورٹنگ ہو رہی ہو۔ بہرحال اس معاملے کا پاکستان سے کیا لینا دینا ؟

پاکستان کا افغانستان سے کیا مسئلہ ہے؟ ان سے کیا مطالبہ ہے؟ صرف ایک ہی کہ آپ اپنی سرزمین ٹی ٹی پی المعروف خوارج الہند کے دہشت گردوں کو استعمال نہ کرنے دیں، انہیں بیس کیمپ فراہم نہ کریں، فنڈنگ نہ کریں، ان کے جنگجوئوں کو سیف ہاؤسز اور آزادنہ نقل وحرکت کے مواقعہ نہ دیں۔ یہ مطالبہ کیا غلط اور ناجائز ہے؟ اگر پاکستان افغان طالبان حکومت کے شدید مخالف احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے اتحاد نیشنل ریزسسٹنس فرنٹ یعنی این آر ایف کو اپنے ہاں جگہ دے، انہیں بیس کیمپ بنانے دے، سپلائی لائن فراہم کرے، سیف ہاوسز دے، ہتھیار اور پیسے دے کر کہے کہ خوست، پکتیکا، جلال آباد یا دیگر علاقوں میں جا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرو تو افغان طالبان حکومت کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا وہ پاکستان سے مطالبہ نہیں کریں گے کہ این آرایف کی سپورٹ نہ کی جائے اور پاکستانی سرحد افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں؟ کیا ایسا نہیں ہوگا؟ پاکستان یہی کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی دہشت گردیاں کوئی مفروضہ نہیں بلکہ امر واقعہ ہے۔ پختون خوا میں پچھلے چند ماہ کے دوران ٹی ٹی پی کی دہشت گردی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف فورسز پر حملے اور تخریب کاریاں چل رہی ہیں بلکہ پولیس تھانوں اور دیگر انتظامی افسران پر بھی شدید حملے ہو رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہی نظر آ رہا ہے کہ پختون خوا کے افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں پاکستانی انتظامیہ کو مفلوج کر دیا جائے۔ پاکستان کا افغان طالبان حکومت سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے آپریٹ نہ ہونے دیا جائے۔ اس مطالبہ کے واضح اور معقول منطقی دلائل اور وجوہات ہیں۔ ٹی ٹی پی مسلسل حملے کر رہی ہے اور وہ سب افغان بارڈر سے قریبی ملحقہ علاقوں میں ہو رہے ہیں، ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے ناقابل تردید ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

اب اگر ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کر رہی ہے اور پاکستان افغان طالبان پر زور دے رہا ہے کہ انہیں حملے نہ کرنے دو۔ تنگ آ کر، مجبور ہو کر پاکستان یہ کہنا شروع ہوگیا ہے کہ اگر آپ ایسا نہیں کرو گے تو پھر ہم ان کے ٹھکانوں پر حملے کریں گے، تب آپ شکوہ یا گلہ نہ کرنا۔ مجھے کوئی بتائے کہ اس پوری سیچوئشن کا امریکی صدر کے بگرام ائیربیس پر مطالبہ سے کیا تعلق بنتا ہے ؟بگرام ائیر بیس امریکا کو ایک سال مزید نہ ملے اس پر کیا فرق پڑے گا؟ لیکن ٹی ٹی پی کے حملے اگر ایک سال مزید جاری رہے تو ہمارے بیسیوں جوان اور افسر شہید ہوجائیں گے، پولیس اور انتظامیہ کے نجانے کتنے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس لیے بھیا جی! یہ امریکا کی جنگ نہیں ہے۔ یہ خالص پاکستان کی جنگ ہے، یہ پاکستانی مفادات اور ہمارے فوجیوں کی قیمتی جانوں کا معاملہ ہے۔

بعض لوگوں نے، جن میں ایک سیاسی جماعت بھی شامل ہے، انہوں نے بہت سی سوشل میڈیا پوسٹیں اس موضوع پر بھی کی ہیں کہ یہ ایکسٹینشن کا معاملہ ہے اور اسی وجہ سے یہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک اور فضول اور بے بنیاد بات ہے۔ اوپر وضاحت سے سمجھایا ہے کہ اصل تنازع اور اصل ایشو ٹی ٹی پی کی دہشت گردی ہے، اسے کسی اور ایشو سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ ویسے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایکسٹینشن والی بات کیوں کہی جا رہی ہے؟ یہ ایشو سیٹل ہو چکا ہے۔ جب کسی عہدے کا ٹینیور ہی بڑھ گیا تو پھر ایکسٹینشن کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ مسئلہ اگر اٹھا تو تین سال بعد یعنی نومبر دو ہزار اٹھائیس میں زیربحث آئے گا۔ اس سے پہلے کوئی چانس نہیں۔ قانونی ماہرین اس پر متفق ہیں کہ یہ معاملہ سیٹل ہو چکا۔ اس لیے اس بہانے کنفیوژن پھیلانا بھی عجیب وغریب سی حرکت ہے۔

افغان طالبان حکومت کی حمایت کا بھی جواز ڈھونڈا جا رہا ہے۔ عجب عجب دلائل تراشے جا رہے ہیں۔ کوئی طالبان حکومت کے رویے اور طرزعمل کو دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کر رہا۔ پختونخوا کے لیے تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی اسمبلی میں پہلی تقریر بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ اور کم فہمی پر مبنی تھی۔ انہوں نے پختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی اور منہ بھر کر یہ بھی کہا کہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔ یعنی صوبائی حکومت کہہ رہی ہے کہ دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دو، انہیں صوبائی انتظامیہ، پولیس اور ہماری فورسز کے جوانوں کو شہید کرنے دو۔ ایسا بھلا کون کہہ سکتا ہے؟ اسی طرح سہیل آفریدی نے افغان حکومت سے بھی کچھ زیادہ ہمدردی جتائی اور سامنے موجود سفاک، تلخ حقیقتوں کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ انہیں افغان طالبان حکومت کی جانب سے واضح طور پر ٹی ٹی پی کی خوفناک حد تک آگے بڑھ کر کی گئی سپورٹ نظر نہیں آئی؟

آج کل واٹس ایپ گروپوں میں ایک اور پوسٹ گردش کر رہی ہے، مجھے بھی بعض دوستوں نے کمنٹ کے لئے بھیجی۔ پوسٹ کے مطابق ”افغانستان کی سرحد پانچ ممالک سے ملتی ہے۔ پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان۔ صرف پاکستان کیوں نالاں ہے؟ اگر افغان طالبان حکومت میں کوئی نقص یا خرابی ہوتی تو دوسرے ہمسایوں کو بھی شکایت ہوتی؟” اس طرح کی پوسٹیں بھی غلط فہمی، مغالطوں اور جھوٹ سے بھری ہوتی ہے۔ ایسا کرنے والے عام آدمی کی سادگی، بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران خود افغان طالبان حکومت سے بری طرح نالاں ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایران نے پچھلے سال ڈیڑھ کے دوران نو دس لاکھ افغانوں کو ایران سے نکالا ہے۔ جی ایک ملین کے لگ بھگ افغان ایران سے نکالے گئے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لیے ایران میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ان افغان شہریوں کا ہاتھ ثابت ہوگیا ہے۔ وہ افغان جو ایران میں دس بیس تیس سال سے رہ رہے تھے، افغان طالبان حکومت کے آنے کے دو تین برسوں میں نکالے جا رہے ہیں۔

ابھی دو ماہ قبل دوشنبہ میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا اجلاس ہوا، پاکستان کے محمد صادق نے وہاں بتایا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردوں میں سے ستر فیصد اب افغان شہری نکل رہے ہیں۔ اس پر ایرانی وفد کے سربراہ نے اٹھ کر کہا کہ یہی شکوہ ہمارا بھی ہے۔ ایرانی وفد کے ہیڈ نے بتایا کہ ابھی چاہ بہار میں ایک دہشت گردی کے واقعے میں اٹھارہ دہشت گرد مارے گئے اور ان میں سے سولہ افغان شہری تھے۔ جی اٹھارہ میں سے سولہ یعنی نوے پچانوے فیصد۔ رہا تیسرا ملک تاجکستان تو ان کو بھی بہت سے شکایا ت ہیں۔ تاجکستان کے ساتھ تو ویسے بھی افغان طالبان حکومت کے تعلقات بھی بہت خراب ہیں۔ افغان حکومت کا الزام ہے کہ تاجکستان میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے نے پناہ لے رکھی ہے اور وہیں سے این آر ایف آپریٹ کر رہا ہے۔ ازبکستان اور ترکمانستان کو بھی جلد شکایات پیدا ہو جائیں گی، ابھی افغان طالبان حکومت کا ہدف دراصل پاکستان ہے، ورنہ کچھ سکون ملے تو وہ اپنے ہر ہمسایے کو تنگ کریں گے۔

ویسے اس نکتہ پر بھی غور کریں کہ ٹی ٹی پی نے آخر مئی کی پاک بھارت جنگ کے بعد اپنی کارروائیاں اتنی تیز اور شدید کیوں کر دی ہیں؟ ایسا کیا ہوگیا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کا گراف انتہائی حد تک بلند ہوگیا؟ پاکستان نے تو افغانستان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس پر ردعمل آتا؟ یہ صرف اور صرف انڈین سپانسر شپ اور اس کے دباؤ پر ہو رہا ہے۔ انڈین پیسہ اور سپورٹ ہی کے باعث ٹی ٹی پی حملے کر رہی ہے اور افغان طالبان حکومت بھی اچانک ہی اس انڈیا پر مہربان ہوگئی جو ہمیشہ ان کا مخالف رہا۔ جو ملا عمر صاحب کے دور حکومت میں مسلسل شمالی اتحاد کا حامی رہا۔ جو حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کا سب سے بڑا سپورٹر اور حامی رہا۔ اچانک وہی بھارت افغان طالبان حکومت کا پسندیدہ بن گیا۔ آخر کیوں؟ اس سوال پر غور کریں گے تو تمام کنفیوژن ختم ہو جائے گا۔ اس کنفیوژن کو ہم نے ختم کر کے دہشت گردوں اور ان کے سپانسر ممالک اور قوتوں کے خلاف یکسو ہونا ہے۔ یاد رکھیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ان شاء اللہ پاکستان فاتح اور دہشت گرد ہی نامراد اور ناکام ہوں گے۔