محسنوں کو ڈسنے والے

کڑوا سچ سہی، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ افغانستان ہمسایہ تو ہے لیکن برادر ملک کبھی بھی نہیں تھا۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں کہ فلاں حکومت سیکولر تھی، فلاں روس نواز اور فلاں اسلامی۔ ماضی کی کتاب کھول لیں۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کی بادشاہت 40سال تک رہی، تختہ الٹ کر اسی کا کزن دائود خان برسر اقتدار آیا۔ روس نواز نور محمد ترکئی ہو، حفیظ اللہ امین ہو، ببرک کارمل ہو، نجیب اللہ ہو یا روسی انخلا سے قبل کا کوئی حکمران۔ پاکستان کیلئے کوئی بھی برادرانہ جذبات نہیں رکھتا تھا۔ ان میں نسبتاً ظاہر شاہ کی بادشاہت کا دور غنیمت تھا جس میں حالات پرامن رہے اور مغربی سرحد پر پاکستان کو کوئی خطرہ پیش نہیں آیا۔ روسی انخلا کے بعد بہت امید بندھ گئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے بیچ ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ لیکن طویل اور مشترکہ جدوجہد کرنے والے تمام افغان گروہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ قبائلی تنازعات، تنگ نظری اور ذاتی اقتدار سے بلند ہو کر نہیں دیکھ سکتے۔ جلد ہی یہ گروہ آپس میں چھوٹے چھوٹے تنازعات پر برسر پیکار ہو گئے۔ اسلحہ وافرتھا اور انسانی جان کی قیمت کوئی تھی نہیں۔ بڑا دشمن بھاگ چکا تھا سو اب اجاڑ بستیوں، ویران شہروں اور تباہ حال افغانوں کو مزید برباد کرنے کی باہمی جنگ شروع ہوئی۔ یہ اس وقت ہوا جب دنیا کو نظر آ رہا تھا کہ پورا ملک تباہ ہو چکا ہے اور ایک کروڑ کے لگ بھگ افغان شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں پناہ گزین کے طور پر عطیات اور خیرات پر گزارہ کر رہے ہیں۔ مسلح گروہوں کے سردار ذرا سی بھی دینی غیرت اور قومی حمیت رکھتے تو سب سے پہلے ان افغانوں کو واپس لا کر بساتے اور نسل در نسل تباہی اگلی نسلوں تک نہ جانے دیتے۔ لیکن ہوا یہ کہ انہی سات بڑی جماعتوں کے بیچ علاقے اور اسلحے پر قبضوں کی جنگ اس طرح شروع ہوئی کہ اجڑی ہوئی بستیاں مزید اجڑنے لگیں۔ افغان پناہ گزین ایران اور پاکستان سے واپس تو کیا جاتے نئے پناہ گزین ہمسایہ ملکوں میں داخل ہونے لگے۔ پاکستان نے حد درجہ کوشش کی کہ روس پر فتح کے ثمرات ضائع نہ ہوں اور افغانستان کے معاملات کسی طرح ایک مضبوط متحدہ مرکزی حکومت کے ہاتھ میں چلے جائیں حتیٰ کہ ان مسلح گروہوں کے سرداروں کو خانہ کعبہ میں ایک ساتھ لے جا کر حلف لیا گیا۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ حلف بھی ان کے ذاتی مفاد اور قبائلی عصبیت کو روک نہیں سکا۔ افغانستان جنگی سرداروں کے درمیان اس طرح تقسیم ہوتا چلا گیا کہ آپ کوئی بھی دو شہروں کے درمیان سفر کرتے تو ہر کچھ دیر بعد ایک جنگی سردار کا علاقہ ختم اور دوسرے کا شروع ہو جاتا تھا۔ اپنے علاقے سے گزرنے دینا یا نہ گزرنے دینا اس سردار کی مرضی پر منحصر تھا، علاقے سے گزرنے کے پیسے الگ تھے۔ مسافر 100میل کے سفر میں دس، بارہ سرداروں کو بھتہ دینے پر مجبور تھے۔ بڑی سڑکیں ان کے قبضے میں تھیں اور کوئی مرکزی نظام تھا ہی نہیں۔ ان سرداروں نے عام لوگوں پر جو ظلم وستم کیے اور جس طرح تباہ حال افغانوں کو مزید تباہ کیا اس کی داستانیں پورے ملک میں بکھری ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ گھروں سے لڑکیوں اور خواتین کو اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نہیں معلوم اس پورے عرصے میں وہ تمام مسلح گروہ کہاں تھے جنہوں نے روس کے خلاف طویل مزاحمتی لڑائی لڑی تھی۔ گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، جلال الدین حقانی، احمد شاہ مسعود، یونس خالص، عبدالرب رسول سیاف اور عبدالحق ان دنوں کہاں تھے؟ ان کے ہوتے ہوئے، بھاری جتھوں کے ہوتے ہوئے، بھاری اسلحہ کے ہوتے ہوئے یہ سب کیوں اور کیسے ہو رہا تھا، آپ اس کا ٹھیک جواب سمجھ ہی نہیں سکتے۔ دو ہی صورتیں تھیں؛ یا یہ جنگی سردار ان کے اپنے تھے یا پھر یہ اپنے علاقائی مفادات کو دیکھتے ہوئے سب کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے تھے۔ تیسری صورت کہ یہ سب بے بس تھے، میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ یہ صرف اپنے مفادات کے اسیر تھے اور ان کی کوشش اپنا اثر ورسوخ زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی تھی لیکن اس تمام صورتحال میں یہ تیزی سے دنیا بھر اور خاص طور پر سب سے بڑے مددگار پاکستان کا اعتماد کھوتے چلے گئے اور اپنے ملک میں غیر مؤثر بھی ہوتے چلے گئے۔ آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ سارے نام مدرسوں کے استاد اور طالب علم نہیں تھے۔ زیادہ ناموں کے ساتھ پروفیسر اور انجینئر کے سابقے لگتے تھے۔ یہ جدید تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے لوگ تھے لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ ان کی قبائلی اور ذاتی عصبیتیں ہر ملی اور قومی مفاد سے برتر تھیں۔

1996ء میں ان جنگی سرداروں کے خلاف ایک عوامی لہر اٹھی اور طالبان برسر اقتدار آ گئے۔ طویل خانہ جنگی کے بعد ایک امید پیدا ہوئی کہ اب ملک میں امن بھی ہو جائے گا اور شاید ترقی کا سفر بھی شروع ہو سکے۔ لیکن یہ خیال خام نکلا۔ امن تو کسی حد تک ہو گیا لیکن دنیا بھر میں طالبان کی کج فہمی، تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کے قصے بھی عام ہونے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ ان سے ہمدردی رکھنے والے ان کے قول وفعل کی تاویلات کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ 2001ء میں جب طالبان نے بامیان میں بدھا کے تاریخی مجسمے منہدم کیے، جن کا کسی بھی طرح کوئی جواز نہیں تھا، تو اس کی بھی تاویلات اور توضیحات کی گئیں۔ لڑکیوں اور خواتین پر نہایت سختی، ان کی تعلیم پر پابندی وغیرہ ایسے معاملات تھے جو سب کو نظر آتے تھے اور بہت سے معاملات کی کوئی تاویل بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ میرے خیال میں یہ بڑی غلطی ہوئی کہ ملتِ اسلامیہ کو یکجان دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں نے طالبان کے ہر جاہلانہ قول وفعل کو اس امید پر برداشت کیا کہ آگے چل کر معاملات بہتر ہو جائیں گے اور دنیا کے ساتھ روابط میں ان کے نقطہ نظر میں بھی بہتری آتی جائے گی۔ لیکن وہ فارسی مصرع ہے نا ”وہ واپس آیا تو بدستور گدھا ہی تھا”۔ وقت نے ثابت کیا کہ بہتری نہیں آئی اور بہت سے نئے مسائل عفریت بن کر کھڑے ہو گئے۔

1947ء سے اب تک 78سال میں وقت نے بہت سی باتیں ثابت کر دی ہیں۔ ظاہر شاہ کی بادشاہت ہو، روسی نواز سیکولر ببرک کارمل اور نجیب اللہ ہوں، سات جماعتوں کا اتحاد ہو، پاکستان کا نمک کھانے والا حامد کرزئی ہو یا مفرور اشرف غنی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود ان میں سے کوئی بھی پاکستان کو نہ برادر سمجھتا تھا نہ محسن۔ اقتدار اور پیسہ ان کیلئے سب سے پہلے اور سب سے آخری دوست تھا۔ قبائلی عصبیت اور مزاج انہیں اپنے سے اوپر دیکھنے ہی نہیں دیتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہی وہ قوم تھی جس میں سید جمال الدین افغانی نے ملتِ اسلامیہ کا خواب دیکھا اور دکھایا تھا۔ ان افغانوں کو، جن کے نام اس تحریر میں لکھے گئے ہیں، امتِ مسلمہ، اس کے مزاج، اس کے مسائل سے کیا واسطہ ہے؟ کیا آ پ نے گزشتہ پچاس سال میں ان میں سے کسی کے منہ سے یہ لفظ بھی سنے ہیں؟ اس دور میں اگر محسن کشی اور احسان فراموشی کی بدترین مثال مل سکتی ہے تو وہ صرف ایک ہے؛ افغانستان۔ ظاہر شاہ کی دستوری بادشاہت ہو، ببرک کارمل اور نور محمد ترکئی کا ڈیمو کریٹک ریپبلک افغانستان ہو، حامد کرزئی کا اسلامی جمہوریہ افغانستان ہو، یا ملا ہبة اللہ کا امارت اسلامی افغانستان، کسی دور میں ان سے خیر نہیں ملی، اس لیے ان سے آئندہ بھی کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ پاکستان کا ان کے ساتھ معاملہ ہر دور میں یہی تھا کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ آج بھی یہی صادق ہے۔ ہر دل سے ان کیلئے بددعا نکلتی ہے۔ جو قوم ایسی محسن کش ہو اس کیلئے دعاکرے بھی کون۔

ہفتے کی رات سے افغانستان اور پاکستان کی سرحدی چوکیوں میں بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ جاری ہے۔ محسنوں کو ڈسنے والوں کا سر کچل دینے کی شدید خواہش ہر پاکستانی کے دل میں ہے۔ ہم سب افغانستان کو برادر ملک دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن صرف چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ ایک فریق نہ چاہتا ہو تو اپنا ہاتھ بڑھا دینے سے مصافحہ نہیں ہو جاتا۔