27ستمبر کو خون آشام راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے قیام کے 100برس مکمل ہونے کے ساتھ ہی ‘اکھنڈ بھارت’ کی ناپاک مہم میں بھی شدت آ گئی ہے۔ 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس کے سیاسی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں اس وقت بی جے پی کے حامیوں کی طرف سے آر ایس ایس کے تاسیس کا جشن منایا جا رہا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے آر ایس ایس کی تعریف و تحسین کی اور 24ممالک کے 50سے زیادہ سیاسی نمائندے اور مبصر آر ایس ایس کے صد سالہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ آر ایس ایس کے صد سالہ سفر کے تناظر میں ایک لاکھ سے زائد ہندو اجلاس کرانے کے علاوہ کئی دیگر پروگرام بھی منعقد ہوئے جن کا آغاز دو اکتوبر کو تنظیم کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے خطاب سے ہوا۔ ان صد سالہ تقریبات کے دوران ملک گیر سطح پر گھر گھر رابطہ پروگرام بھی منعقد کیے گئے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ فاشسٹ سیاسی نظریات کی حامل تنظیم ہے جو جمہوریت کے بجائے آمریت کی حامی ہے۔ تاریخی شواہد سے یہ واضح ہے کہ اس کے رہنماوں نے ہٹلر اور مسولینی کے قومی و سیاسی نظریات سے براہِ راست استفادہ کیا۔ ان کے بڑے بڑے لیڈروں نے اٹلی اور جرمنی جاکر فاشزم کی تعلیم حاصل کی اور آج پورے بھارت میں اس کی شاخوں کا جو جال پھیلا ہوا ہے، وہاں درحقیقت اسی فاشسٹ ذہنیت کی آبیاری کی جاتی ہے اور انہی شاخوں کے ذریعے ہندو فاشزم کے زہریلے جراثیم پھیلائے جا رہے ہیں۔
آر ایس ایس کا قیام 1925ء میں کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی جانب سے ناگپور میں عمل میں آیا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے آر ایس ایس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درجنوں تنظیمیں قائم کیں۔ آر ایس ایس کے کارکنوں کو جسمانی اور ذہنی تربیت دی جاتی ہے۔ جسمانی تربیت میدانوں میں دی جاتی ہے جسے شاکھا کہتے ہیں۔ ذہنی تربیت کے دوران آر ایس ایس میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور دوسروں کیلئے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی پہلے ہندو تھے جنہوں نے بعد میں مذہب تبدیل کیا۔ بی جے پی کے بانی ڈاکٹر شیاما پرشاد مکھر جی نے جب نہرو کابینہ سے مستعفی ہوکر ایک انتہا پسند پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس وقت کے آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک گوروجی ہی سے کارکن مانگے تھے، چنانچہ انہی سویم سیوکوں کو لے کر ڈاکٹر شاما پرشاد مکھرجی نے بھارتیہ جن سنگھ کی تشکیل کی، جس کے وہ خود صدر بنے اور پنڈت دین دیال اپادھیائے جنرل سکرٹری مقرر ہوئے۔ بی جے پی کی ابتدائی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا جنم آر ایس ایس ہی کی کوکھ سے ہوا اور آر ایس ایس بھی اسے اپنی ہی پارٹی مانتی ہے۔ چنانچہ آر ایس ایس کے اشاعتی ادارہ سروچی پرکاشن سے شائع کتاب ”آر ایس ایس ایک تعارف” میں جن 30تنظیموں کو یکساں نظریاتی تنظیم بتایا گیا ہے اس میں ایک نام بی جے پی کا بھی ہے۔ ڈنمارک کے سکالر تھامس بلوم ہینسن نے اپنی کتاب The Saffron Wave: Democracy and Hindu Nationalism in Modern India میں لکھا ہے کہ ”آر ایس ایس کو جمہوری اقدار میں صرف برائے نام دلچسپی ہے” یہ اپنے قیام سے لے کر اب تک انڈیا کو ‘ہندو راشٹر، یعنی ہندو ملک بنانے کے مشن پر لگی ہوئی ہے۔ وہ ہندو ازم کو مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ کہتی ہے۔ یہ مسلم اپیزمنٹ، تبدیلی مذہب، گئوکشی، رام مندر، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ وکی پیڈیا میں درج ہے کہ کس طرح ہیڈگیوار نے 1927ء میں مسلمانوں کے خلاف 100سویم سیوکوں کو تیار کیا تھا اور چار ستمبر کو لکشمی پوجا کے دن مسجد کے سامنے سے ڈھول باجے کے ساتھ جلوس لے جانے کی کوشش کی اور جب مسلمانوں نے انہیں روکا تو آر ایس ایس کے کارکن پہلے ہی تیار تھے، انہوں نے مسلمانوں کو اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ہندوتوا نامی کتاب کے مصنف اور آر ایس ایس کے دوسرے اہم سربراہ ایم ایس گوالکر نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے انہوں نے کس طرح ناگپور کے دنگوں میں اپنے ہاتھ کا استعمال کیا تھا۔
آر ایس ایس کا ہندو قوم پرست نظریہ بنکم چندر چیٹرجی سمیت لالہ لاجپت رائے، وی ڈی ساورکر اور بال گنگا دھر تلک جیسے ہندو مہاسبھا کے رہنماؤں کی تصانیف میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اسی بنا پر مذکورہ تنظیم پر کئی دفعہ پابندی لگ چکی ہے لیکن ہر دفعہ اس کے اثر و رسوخ اور دباؤ پر یہ پابندی ختم کی جاتی رہی۔ آر ایس ایس پر سب سے پہلی پابندی برطانوی دورِ تسلط میں پنجاب کے وزیراعظم ملک خضر حیات ٹوانہ نے لگائی تھی۔ ملک خضر حیات یونینسٹ پارٹی کے پرائم منسٹر تھے۔ انہوں نے 24جنوری 1947ء کو آر ایس ایس پر پابندی لگائی جو 28جنوری 1947ء کو محض چار دن بعد ہٹا دی گئی۔ دوسری پابندی گاندھی کے قتل پر لگائی گئی۔ گاندھی کا قاتل نتھو رام گوڈسے اسی کا پرچارک تھا۔ تیسری بار بابری مسجد کے شہید کیے جانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ آر ایس ایس کی کل شاخوں کی تعداد 77ہزار 848ہے جو مختلف مقامات پر ہندو انتہا پسندی کیلئے کام کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 20سے 35سال کی عمر کے تقریباً ایک لاکھ نوجوانوں نے صرف گزشتہ سال آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 12ہزار 431تربیت یافتہ سویم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ بھارت سے باہر اس کی 93ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ہندو سویم سیوک سنگھ کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاخوں کی تعداد 641ہے۔ برطانیہ میں 48شاخیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی مضبوط ہے۔ کینیا کی شاخوں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ پانچ شاخیں مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اپنے جھانسے میں لانے کیلئے ”مسلم راشٹریہ منچ” اور ”جماعت علمائ” نامی تنظیمیں قائم کی ہیں۔ ان تمام تنظیموں کے ذریعے آر ایس ایس مسلم نوجوانوں کو ورغلانے کا کام کرتی ہے اور ان کیلئے سکولوں اور کالجوں سے ہی مسلم طلبہ کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔
بی جے پی کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پاس ہے۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ آر ایس ایس ہمیشہ سے علاقائی زبانوں، اقلیتی حقوق اور ان کی مذہبی شناختوں کی مخالف رہی ہے۔ جس کے مظاہر بھارت میں ہر سو نظر آجائیں گے۔ اڑیسہ میں مسیحی پادری گراہم آسٹن کے قتل، یو پی میں گاؤ رکھشا کے نام پر انصاری کے قتل کی صورت میں یہ نظریہ کارفرما نظر آتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے، دلت کو تشدد سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے فرقہ پرست سیاستدان کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن کہنے لگ جاتے ہیں۔ بھارت اس وقت پوری طرح دہشت گردتنظیم آر ایس ایس کے نرغے میں ہے۔ اس متشدد نظریے کے حامل مسلمانوں، پسماندہ طبقات اور مسیحیوں کو ”غیر ملکی” سمجھتے ہیں۔ ان کی وفا داری پر ہمیشہ شک کرتے ہیں۔ یہ ہندوتوادیوں کا اصل چہرہ ہے جسے دنیا کو پہچاننا ہوگا۔