قیدیوں کی رہائی آج،غزہ سے ملبہ ہٹانے کا عمل شروع

غزہ/واشنگٹن/ریاض/شرم الشیخ/تل ابیب/سڈنی:حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا ہے کہ غزہ میں موجود48 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی آج سے شروع ہو گی۔اسامہ حمدان نے ایک انٹرویو میں کہا دستخط شدہ معاہدے کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ پیر کی صبح سے شروع ہونا ہے اور اس معاملے میں کوئی نئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زمین پر موجود حماس کے ارکان نے تحریک کی قیادت کو قیدیوں کی حوالگی کی نقل و حرکت کے بارے میں ابھی مطلع نہیں کیا۔حمدان نے کہا رہائی کے لیے مقرر فلسطینی قیدیوں کی فہرست پر ابھی مذاکرات جاری ہیں۔

عہدیدار نے کہا حماس کے قیدی دفتر نے کہا ہے کہ ابھی اس عمل کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ اسرائیل بدستور بعض قیدیوں کی رہائی سے انکار کر رہا ہے تاہم مذاکراتی وفد ان کی رہائی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

حمدان نے مزید روشنی ڈالی کہ معاہدے کے تحت انسانی امداد کے لیے پانچ داخلی راستے کھولے جانے کی توقع ہے۔غزہ کی پٹی اور مصر کے درمیان رفح راہداری دونوں جانب کے افراد کے لیے اگلے بدھ سے دوبارہ کھل جائے گی۔

ادھراتوار کی صبح رفح سرحدی گزرگاہ سے خوراک اور دیگر انسانی امداد سے لدے درجنوں ٹرک کرم ابو سالم کے راستے غزہ کی جانب روانہ ہو گئے۔تصاویر میں دیکھا گیا کہ اتوار کی صبح چھ بجے چار سو امدادی ٹرک رفح سے کرم ابو سالم اور العوجہ کے راستے غزہ میں داخلے کے لیے روانہ ہوئے۔

نوے ٹرک مصرکی جانب سے رفح کراسنگ پار کر کے کرم ابو سالم اور العوجہ تک پہنچ گئے، جہاں سے یہ امداد غزہ منتقل کی جائے گی۔ذرائع کے مطابق تمام فریقوں کے درمیان رابطہ جاری ہے تاکہ آئندہ منگل کو رفح کراسنگ فلسطین کی جانب سے کھولی جا سکے اورغزہ سے زخمیوں،مریضوں، فلسطینی شہریوں، غیرملکیوں، دوہری شہریت رکھنے والوں اور مصر میں پھنسے افراد کی آمدورفت ممکن ہو سکے۔

دوسری جانب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی برقرار ہے، غزہ شہر سے ملبہ ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ،غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں امریکا کے 200 فوجی اسرائیل پہنچ گئے ،حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔

اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہائی سے قبل 2 جیلوں میں منتقل کرنا شروع کردیا ۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق جبری طور پر بے گھر کئے گئے فلسطینی اپنی اشیا سے لدے ٹرکوں پر سوار ہو کر مصری اور فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے وسطی غزہ کی پٹی میں وادی غزہ کے قریب ساحلی سڑک کے ساتھ ساتھ غزہ شہر کی جانب جا رہے ہیں۔

غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینی صرف ملبہ دیکھنے واپس لوٹے ہیں۔2 سالہ جنگ کے بعد غزہ شہر میں ملبہ ہٹانے کے لئے بلڈوزروں نے کام شروع کر دیا ہے جب کہ دسیوں ہزار جبری طور پر بے گھر فلسطینی شمالی غزہ کے تباہ شدہ شہروں اور قصبوں کی طرف واپس جا رہے ہیں۔

بلڈوزر کے آپریٹر علی العطار نے کہا کہ غزہ میں تباہی کی سطح واقعی سمجھ سے باہر ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف سڑکیں صاف کرنے میں ہی کم از کم ایک مہینہ لگے گا تاکہ لوگ ان علاقوں تک پہنچ سکیں، بلڈوزروں کی حالت بھی خراب ہے، جو مشین میں چلا رہا ہوں، اس سے تیل رس رہا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر مرمت کی ضرورت ہے۔

غزہ حکام کے مطابق اقوام متحدہ کی تازہ فضائی تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ صرف غزہ شہر میں تقریباً 41 ہزار رہائشی یونٹس تباہ ہو چکے ہیں۔شہر میں 80 لاکھ مکعب میٹر (تقریبا 283 ملین مکعب فٹ) ملبے کے برابر ہے۔

دریں اثناء غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں امریکا کے 200 فوجی اسرائیل پہنچ گئے۔امریکی میڈیا کے مطابق اسرائیل پہنچنے والے امریکی فوجی غزہ میں داخل ہوئے بغیر وہاں موجود مصر، قطر اور ترکیے کے فوجیوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔

اسرائیلی فوج غزہ امن معاہدے کے مطابق مقررہ حدود تک واپس آگئی ہے، اسرائیلی فوج کی مقررہ حدود میں واپسی کا جائزہ لینے کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے غزہ کا دورہ کیا اور کہا اسرائیلی فوج کے انخلا کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔

امریکی سینٹ کام کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر نے غزہ کے دورے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کے دورے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ سینٹ کام کی زیر قیادت سول ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر کیسے بنایا جائے، غزہ میں امریکی فوجی تعینات نہیں ہوں گے۔

ادھرمصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ جنگ بندی کانفرنس کی تیاری مکمل ہے ، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شرکت متوقع ہے، جب کہ برطانوی وزیراعظم کیئراسٹارمر بھی شرکت کر رہے ہیں ۔اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہائی سے قبل 2 جیلوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے، جو حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کا حصہ ہے، اس معاہدے کے تحت غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔

مصر کے صدارتی دفتر کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی آج پیر کی سہ پہر کو شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کی سربراہی کریں گے جس میں 20 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں۔

بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ، مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانا اور خطے میں سلامی و استحکام کے نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ وہ بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گے جبکہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کے علاوہ اٹلی وا سپین کے وزرائے اعظم اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں بھی شریک ہوں گے۔اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتنن یاہو اجلاس میں شریک ہوں گے یا نہیں۔

تاہم حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ حماس اس میں شریک نہیں ہو گی کیونکہ اس نے قطری و مصری ثالثوں کے ذریعے اس پورے عمل میں حصہ لیا ہے۔حسام بدران کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کافی مشکلات اور پیچیدگیاں موجود ہیں جبکہ ایک اور رہنما نے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ غزہ کی بحالی کئی نسلوں کے بعد دیکھنا ممکن ہوگی۔ اقوام متحدہ ماہر نے کہا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ کی پٹی میں خیمے اور عارضی رہائش بھیجنے کی اجازت دینی چاہیے، کیوں کہ بے گھر فلسطینی جب شمالی غزہ کے تباہ شدہ علاقوں میں واپس جا رہے ہیں تو انہیں اپنے گھر اور محلے ملبے کے ڈھیر کی صورت میں مل رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے مناسب رہائش، بالا کرشنن راج گوپال نے کہا کہ شمالی غزہ کے ان علاقوں میں جہاں سے اسرائیلی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں، لوگ واپس جا کر صرف ملبہ ہی دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ نفسیاتی اثرات اور صدمات بہت گہرے ہیں، اور یہی ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں جب لوگ شمالی غزہ واپس جا رہے ہیں۔

دریں اثنائخان یونس کے میئر علائو الدین البتا نے تصدیق کی ہے کہ گورنری کا85 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں سیکورٹی کا خلا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شہر کو پٹی میں سیکورٹی کنٹرول کی ضرورت ہے۔

غزہ ایک تباہی کا سامنا کر رہا ہے اور تباہی کے الفاظ یھی صورت حال واضح کرنے کے لیے کم ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہر کے 300 کلومیٹر کے پانی کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ شہر کا 75 فیصد سیوریج نیٹ ورک منہدم ہو چکا ہے۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ 206,000 لکیری میٹرز جو کہ کل روڈ نیٹ ورک کا 82 فیصد ہے، کو بلڈوز کر کے تباہ کر دیا گیا ہے۔ واٹر سپلائی نیٹ ورک کے 296,000 لکیری میٹر مکمل یا جزوی طور پر خراب ہو چکے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پانی کے 36 کنویں مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ متعدد کنویں اس وقت جزوی صلاحیت پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تین مرکزی پانی کے ٹینک تباہ ہو چکے ہیں اور سروس دینے سے قاصر ہوگئے ہیں۔

علاوہ ازیںاسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی بازیابی کے بعد سب سے بڑا چیلنج غزہ میں حماس کی سرنگوں کا خاتمہ ہے۔ اتوار کو اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ فوج کو ان سرنگوں کے مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ ان کا خاتمہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے عمل کا بنیادی حصہ ہے۔

غزہ کے اندر یرغمالیوں کی سیکورٹی کے لیے اسرائیلی حکام نے خصوصی انتظامات شروع کر دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں متعدد سیکورٹی اجلاس منعقد ہوئے ہیں تاکہ انہیں بین الاقوامی ادارے ریڈ کراس کے حوالے کرنے کا طریقہ کار طے کیا جا سکے۔

حماس یرغمالیوں کو ایک ہی مقام پر جمع کر رہی ہے تاکہ انہیں منظم طریقے سے منتقل کیا جا سکے۔ادھرفلسطینی مزاحمتی تنظیموں حماس، اسلامی جہاد اور پاپولرفرنٹ کا کہناتھاکہ غزہ کی گورننس خالصتاً فلسطین کا داخلی معاملہ ہے، کسی غیر ملکی سرپرستی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

ادھراتوار کے روز آسٹریلیا کے گنجان ترین شہر سڈنی کے کاروباری ضلع میں دسیوں ہزار لوگوں نے فلسطینی حامی ریلی میں شرکت کی، منتظمین نے کہاعدالت نے سڈنی اوپیرا ہائوس میں احتجاج کرنے کا اقدام روک دیا تھا جس کے بعد یہ ریلی ہوئی ہے۔میلبرن اور سڈنی سمیت آسٹریلیا کے طول و عرض میں اتوار کے روز تقریباً 27 مظاہرے ہوئے۔

یہ بات منتظم گروپ فلسطین ایکشن نے کہی جس نے سڈنی ریلی میں 30,000 کے ہجوم کا تخمینہ لگایا ہے۔ پولیس کے پاس احتجاج میں شریک افراد کی تعداد کے اعدادوشمار نہیں تھے۔یہ ریلیاں جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کے پس منظر میں ہوئیں۔

سڈنی ریلی کی ایک منتظم امل ناصر نے کہا اگر جنگ بندی برقرار رہے تب بھی اسرائیل بدستور غزہ اور مغربی کنارے پر فوجی قبضہ کر رہا ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف قبضہ اور منظم امتیازی سلوک ایک نسل پرستانہ نظام تشکیل دیتا ہے۔