بہت دیر سے سوچ میں ہوں کہ اسے کیا نام دوں؟ سمجھ نہیں آ رہا۔ لکڑی کی بنی ہوئی اتنی چھوٹی سی چیز کو الماری کہنا مناسب ہے بھی یا نہیں۔ الماری سے تو کسی بڑی سی چیز کا تصور ابھرتا ہے جس میں کئی خانے ہوں اور اونچائی اور گہرائی کے ساتھ اچھی خاصی جگہ گھیرتی ہو۔ اب بھلا اس لکڑی کی دو ڈھائی فٹ اونچی، دو چھوٹے سے دروازوں والی، دو خانوں والی چیز کے لیے شوکیس یا الماری یا نعمت خانہ یا ہوا دان جیسے لفظ کہاں جچتے ہیں۔ یہ سب چیزیں بھی دیکھی اور برتی ہیں اس لیے کوئی جد ا نام چاہیے۔ تلاش نے بتایا کہ باروچی خانے کیلئے بنائی جانے والی چھوٹی الماری کیلئے لکڑی کا گلہ، چھوٹا کمد وغیرہ کے نام بھی بولے جاتے تھے لیکن ہمارے ہاں بہرحال کبھی کسی کو یہ لفظ بولتے نہیں سنا، اس لیے اسے چھوٹی الماری ہی کہہ لیں۔
ہلکے فیروزی رنگ کی یہ چھوٹی سی الماری میرے گھر کی قیمتی ترین اشیا ء میں سے ہے۔ دو پٹ، جن میں اوپر نیچے دو خانوں میں دیکھنے کے لیے لگے ہوئے شیشے ستر سال میں اتنے دھندلے ہو چکے تھے کہ اندر کچھ دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ یہ شیشے بھی بعد میں ٹوٹ گئے تو بس دو خالی فریم ہی رہ گئے۔ جب میرے والد نے 1948ء میں یہ کسی کباڑیے یا نیلام گھر سے خریدی تھی تو اس پر پہلے ہی ایک عمر گزر چکی ہوگی۔ پھر اس نے ایک عمر میرے والدین کے ساتھ گزاری اور اب میرے ساتھ تیسری عمر گزار رہی ہے۔ اس نے والدین کے ساتھ کئی گھروں میں نقل مکانی کی۔ کسی ایک جگہ اس کا ساتھ چھوٹ سکتا تھا۔ زیادہ کارآمد بھی نہیں رہ گئی تھی، لیکن میری امی کو اس سے محبت بھی تھی، جیسے کسی پرانی سہیلی سے ہوتی ہے جس کے ساتھ زندگی کے گرم سرد اکٹھے دیکھے ہوں۔ ہم مشرقی لوگ محبت میں عجیب ہوتے ہیں۔ جانداروں سے کیا، بے جان چیزوں سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ آبائی گھر کی سیاہی مائل سرخ نم دیدہ اینٹیں، آب خوردہ در و دیوار، کنکریاں گراتے بوسیدہ چھجے، صحن میں لگا پیڑ، گلابی گڑھل کا پودا، ہلتے جوڑوں والی چوں چوں کرتی گھڑونچی، آنگن میں لگا نلکا اور ہینڈ پمپ، صندوقچے، بقچیاں، لباس، جوتے۔ ان سب بے جان چیزوں سے وارفتگی والی محبت کیوں ہوجاتی ہے؟ مشکل اور بے وسائل دنوں میں تو یہ محبت اور سوا ہو جاتی ہے۔ ہم کبھی ان چیزوں کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکیں گے لیکن کیا عجب کہ یہ بھی ہمارا فراق محسوس کرتی ہوں۔ مکین مر جائے تو مکان کو مرتے ہم نے بھی دیکھا ہے۔
میں مال روڈ سے انارکلی بازار میں داخل ہوتا ہوں اور تھوڑا آگے چل کر دائیں ہاتھ اس گلی میں مڑتا ہوں جسے مول چند سٹریٹ کہتے ہیں۔ لاہور کے مشہور دینی مدرسے جامعہ اشرفیہ کا آغاز اسی گلی سے ہوا تھا۔ بائیں ہاتھ یہ تین منزلہ عمارت شاید کبھی سرائے رہی ہوگی۔ میں بڑے محرابی دروازے میں داخل ہو کر ڈیوڑھی جیسی جگہ کو دیکھتا ہوں جہاں اب موٹر سائیکلیں اور سائیکلیں ہیں اور شاید کبھی گھوڑے باندھے جاتے ہوں گے۔ آگے ایک اور دروازہ اور بڑا سا احاطہ ہے جہاں چاروں طرف تین منزلہ عمارتیں ہیں اور بیچ میں بڑا سا صحن۔ لیکن مجھے وہاں نہیں جانا۔ ڈیوڑھی سے دائیں بائیں دو پتلے سے چھوٹے زینے اوپر کمروں میں جا رہے ہیں۔ میں دائیں طرف کے زینے سے اس کمرے میں داخل ہوتا ہوں اور کوئی جیسے میرے دل کو جکڑ لیتا ہے۔ خدایا! اس کمرے میں میرے والدین کیسے رہے ہوں گے؟ اس کمرے میں؟ جہاں سورج کی کرن کا بھی گزر نہیں، دن میں بھی بلب جلتا ہے اور تازہ ہوا کا سانس گھٹ گھٹ کر آتا ہے۔ یہاں میری امی جو ابھی نئی نویلی دلہن تھیں، ہجرت کی صعوبتوں سے گزر کر پاکستان پہنچی تھیں اور فوراً ہی لاہور منتقل ہونا پڑا تھا، کیسے رہتی ہوں گی؟ میرے لیے دس منٹ گزارنا ممکن نہیں ہو رہا تو میرے والدین کم و بیش ایک سال کیسے رہے تھے؟ 1948ء کے لگ بھگ میرے ‘بھائی جی’ (والد گرامی) اور امی لاہور آئے تو یہ ایک اجنبی شہر تھا۔ جان پہچان کا صرف ایک نام تھا۔ ہم سب کے محسن اور جامعہ اشرفیہ کے بانی مفتی محمد حسن صاحب کی سایہ دار اور مشفق ہستی، جو کچھ ہی ماہ پہلے خود امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور منتقل ہوئے تھے اور جامعہ اشرفیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہی ایک کمرہ میسر تھا جس میں انہوں نے میرے والدین کو ٹھہرا دیا اور جب تک متبادل جگہ کا بندوبست نہیں ہوا وہ یہیں شب و روز گزارتے رہے۔
بہت بعد میں ایک دن سمن آباد موڑ والے اپنے گھر میں ہم نے کہا کہ امی! یہ جو فضول سی چھوٹی الماری پڑی ہوئی ہے جس کے شیشے یا دھندلے ہیں یا ٹوٹ چکے ہیں، اتنی کمزور ہے کہ نہ اس کے اوپر کوئی چیز رکھی جا سکتی ہے نہ اس کے اندر، اسے پھینک نہ دیں؟ امی کچھ دیر چپ بیٹھی رہیں۔ پھر ان کی آنکھوں میں موتی جھلملانے لگے۔ بولیں ”اس لیے کہ تمہیں اندازہ نہیں کہ یہ چھوٹی سی الماری میری زندگی میں کیسی راحت لے کر آئی تھی۔ جب ہم جامعہ اشرفیہ والے کمرے میں رہتے تھے تو وہاں میں نمک، مرچ، ہلدی اور مسالوں کی کاغذی پڑیاں بنا لیا کرتی تھی، کوئی بوتل، ڈبیا وغیرہ نہیں تھی میرے پاس۔ کوئی شیلف یا الماری یا کارنس بھی نہیں تھی کمرے میں۔ اس لیے یہ کاغذی پڑیاں فرش پر رکھی رہتی تھیں۔ جب میں کمرے کا فرش دھوتی تو پڑیاں بھیگ جاتیں اور نمک مرچ وغیرہ سب خراب ہوجاتے۔ پھر تمہارے بھائی جی یہ چھوٹی الماری کسی نیلام گھر سے لائے تو میں اتنی خوش ہوئی تھی کہ پڑیاں اس میں رکھ کر اب فرش آرام سے دھو لیا کروں گی۔ یہ ہمارے گھر کا پہلا اثاثہ تھا۔ یہ ہر گھر میں میرے ساتھ رہی۔ اس نے میرے ساتھ چار کرائے کے گھر دیکھے اور اب اپنے گھر میں میرے ساتھ ہے”۔ کہانی جاری تھی اور نجانے کیسے امی کی آنکھوں کے موتی ہماری آنکھوں میں بھی منتقل ہو چکے تھے۔
جب 1982ء میں امی اچانک ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں تو ہر چیز ان کی یاد دلاتی تھی۔ کپڑے، زیور، پرس، قرآن مجید، تسبیح، مناجاتِ مقبول، سب کچھ۔ سب کچھ اسی جگہ رہا جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھیں۔ یہ کمزور ناقابلِ استعمال الماری کسی بزرگ کی طرح کونے کھدرے میں پڑی رہی لیکن اب یہ فضول نہیں لگتی تھی۔ 2011ء میں جب میں نئے گھر منتقل ہوا تو بہت سی پرانی چیزیں کسی کو دے دی گئیں یا ضائع کردی گئیں لیکن یہ اثاثہ ساتھ لایا۔ بیٹے نے اس کا فریم بدلوایا، شیشے لگوائے، مرمت کرائی، پالش کرائی اور اسے میرے کمرے میں رکھ دیا۔ پڑیوں کا دور ختم ہو چکا تھا لیکن اب اس میں بوتلیں، مرتبان، ڈبیاں رکھی جا سکتی تھیں۔ اس کی ایک نئی زندگی شروع ہوئی اور اب نئے گھر میں نئی نسلوں کے ساتھ نئی عمر گزار رہی ہے۔
میں مغربی ملکوں کے باشندوں کو حیرت سے دیکھتا ہوں، ایک گھر میں بہت سال رہتے ہیں، پھر آرام سے وہ گھر چھوڑ کر کسی اور گھر میں چلے جاتے ہیں۔ وہ صوفہ جو بہت محنت سے خریدا تھا، پرانا ہونے یا نیا ڈیزائن آجانے پر اطمینان سے بیچ دیتے ہیں۔ وہ گاڑی جو ہزار جتنوں سے لی تھی اور جس پر سینکڑوں میل سفر کیا تھا، بے جھجھک کسی اور کے حوالے کر کے نئی سواری پر بیٹھ جاتے ہیں۔ محلہ کیا، شہر، ریاست، صوبہ اور ملک تک بدل لیتے ہیں اور انہیں کسی چیز کی یاد نہیں ستاتی۔ بے جان چیزوں کی تو کیا جاندار کی محبت بھی نہیں پالتے۔ کبھی کبھی کوئی اپنے کتے اور بلی کے فراق میں اداس بیٹھا نظر آجاتا ہے لیکن بھائی، بہن، ماں یا باپ کے فراق میں کوئی گھل رہا ہو؟ شاید ہی کبھی سنا ہو۔ دل تو ان کا بھی ہوتا ہے مگر الگ طرح کا، محبت تو وہ بھی کرتے ہوں گے لیکن ہم جیسی نہیں۔ ہم مشرق کے لوگ… ایک ایک چیز سے محبت کرنے والے، ماں باپ، بہن بھائی کیا، دوستوں کی یاد تک میں گھل جانے والے۔ ہماری محبتیں، ہماری وابستگیاں، ہمارے پیار، ہماری خوشیاں کتنی چھوٹی لیکن کتنی بڑی ہیں۔ پہلی سائیکل، پہلی موٹر سائیکل اور گاڑی کو یاد رکھنے والے۔ پہلی تنخواہ، پہلی مزدوری، پہلی خریداری کو یاد کرکے آنسو بہانے والے۔ پہلے اثاثے کو سینت سینت کر رکھنے والے۔ ہمارے پاس جو بھی قیمتی اثاثہ آجائے، چند آنوں والا پہلا اثاثہ دل چھوڑ کر نہیں جاتا۔