کئی برس گزر چکے، سردیوں کی ایک سرد صبح اس اخبار نویس کو چشتیاں، ضلع بہاولنگر میں واقع حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کے مزار پر حاضری دینے کا موقع ملا۔ حضرت مہاروی دلی کی مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ نیاز کے جلیل القدر شاگرد تھے۔ شاہ نیاز کے ہزاروں شاگرد تھے، جنہوںنے بڑا نام کمایا، مگر وہ مہار قبیلے کے اس نوجوان نورمحمد سے بڑے متاثر تھے۔ وہ اپنی محفل میں اکثر کہا کرتے کہ سارا مکھن تو وہ پنجابی لے گیا، اب باقی دنیا کیلئے صرف لسی ہی بچی ہے۔ مہاروی صاحب کا مزار پرانی چشتیاں میں ہے۔ جنوبی پنجاب کی پسماندہ تحصیل، جس کا نام پیران چشت کے نام پر چشتیاں شریف پڑا، وہاں جانے کہاں کہاں سے لوگ چلے آتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں کھڑے ہوکر میں نے سوچا، جو محبت اور اپنائیت عوام الناس کو صوفیوں سے ہے، اس کا عشر عشیر بھی بڑے بڑے لوگوں کے حصے میں نہیں آتا۔ ایسے ایسے لوگ، جن کی غیر معمولی ذہانتوں اور حیران کن دلائل نے کتنوں کی آنکھیں خیرہ کر دیں، آج ان کی قبروں کے نشان تک مٹ گئے۔ اس کے برعکس صوفیا کی خانقاہوں آج بھی آباد ہیں۔ نااہل گدی نشینوں اور ہوس زر کے شکار مجاوروں کے باوجود عوام کے دلوں سے ان کی محبت کم نہیں ہوئی۔
تب تصوف اور اہل تصوف کے بارے میں سوچا۔ یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ تصوف کے خلاف آخر بعض لوگ اتنے زور شور سے تنقیدی مہم کیوں چلاتے ہیں؟ اپنی پوری زندگیاں انہوں نے تصوف کے خلاف لگا دیں، آخر کیوں؟ کیا تصوف بطور فلسفہ قرآن وسنت سے متصادم ہے اور کیا صوفیاء کا صرف طرز زندگی ہی سماج کیلئے قابل قبول اور پرکشش ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو صدیوں سے مباحث کا موضوع رہا۔ اس سوال کو کھوجنا چاہیے کہ سچائی کی کرنیں اسی کے باطن سے پھوٹیں گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ تصوف سے وابستہ شخصیات ایسی عظیم الشان ہیں کہ اسلامی تاریخ میں ان کی دوسری مثالیں نہیں ملتیں، یہ بھی مگر ستم ظریفی ہے کہ مختلف ادوار میں بڑی بڑی قد آور علمی شخصیات اٹھیں، انہوں نے اپنی توانائیاں صوفیاء کے رد میں صرف کر دیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی جیسی عظیم شخصیت کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا گیا۔ ایسے لوگوں کی طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے، جنہوں نے اپنے ذہن رسا سے کام لے کر تصوف کے خلاف دلائل کا ایک پہاڑ کھڑا کیا۔ یہ اور بات کہ وقت کے تیزرفتارریلے کے سامنے راہ تصوف کے مسافر تو سرخرو رہے، مخالفوں کے دلائل خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔
مکتب فراہی واصلاحی کے وارث جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے ذہین تلامذہ بھی اسی صف میں شامل ہیں، جو تصوف کو رد کرتے، مگر صوفیاء کی خانقاہوں کے معترف ہیں، ویسی خانقاہیں ماڈرن انداز میں بنانے کے خواہشمند بھی۔ افسوس ان سب نے اس پر غور نہیں کیا کہ وے آف لونگ کو وے آف تھنکنگ سے جدا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ صوفیوں اور درویشوں کا کردار اور سیرت ان کے فلسفہ زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ انسان کی زندگی اس کے افکار ونظریات کا عکس ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی خود تو سچا اور اچھا ہو، مگر اس کے عقائد باطل اور مذہب کی ابدی سچائیوں سے متصادم ہوں؟ سچ تو یہ ہے کہ ایسے ناقدین ایک طرف تو تصوف کو رد کرتے ہوئے قرآن وسنت سے الگ فلسفہ قرار دیتے ہیں، مگر جب عالی مرتبت صوفیاء کی سحر انگیز شخصیتوں سے انکار ممکن نہیں رہتا تو وہ ان کی زندگیوں کو روشن طرز زندگی کا نام دیکر اپنی مرعوبیت کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ تصوف اور اس کی باریکیوں پر بحث کرنا تو اہل علم کا کام ہے۔ اس اخبار نویس کو اپنی کم علمی کا اعتراف ہے، مگر بظاہر یہ لگتا ہے صوفیاء کے ناقدین نے جو ٹھوکر کھائی، اس کا باعث تصوف کو سمجھنے میں ان کی عجلت تھی۔
اہم بات جسے سمجھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی بھی صوفی یا ولی نے اپنے روحانی احوال کو دین کا حصہ نہیں کہا۔ انہوںنے ہمیشہ لوگوں کو اس دین کی طرف بلایا، جس کی تبلیغ کائنات کے افضل ترین انسان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ صوفیوں کی بے پناہ عوامی پذیرائی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ انہوں نے پسے ہوئے محروم ومسکین عوام کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھا۔ ان کا مقصود صرف اللہ کو خوش کرنا تھا، اسی لئے انہوں نے اپنی زندگیوں کا مرکز انسانیت کی بھلائی کو بنایا۔ صوفی اور علماء ظاہر کے مابین یہی بنیادی فرق ہے۔ صوفی مذہب، فرقے اور ذات برادری سے قطع نظر صرف آنے والے کی شخصیت کو اہمیت دیتا ہے۔ دہلی کے نامی گرامی صوفی اور استاد مولوی عبدالسلام نیازی اکثر کہا کرتے تھے، اپنے آپ کو صفر کر کے اس اکائی سے جڑ جائو۔ پھر تم بیش بہا ہو جائو گے۔ مولانا عبدالسلام بھی عجب وضع کے بزرگ تھے۔ ان کا علم غیرمعمولی اور استغنا بھی کمال کا تھا۔ مفتی کفایت اللہ، مولانا آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سے لے کر سید ابوالاعلی مودودی اور ان کے بھائی ابوالخیر تک ان گنت اہل علم نے مولانا نیازی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا یا استفادہ کی کسی نہ کسی صورت سے فیض یاب ہوئے۔ حیدرآباد کے ایک معروف استاد کو ریاضی کے کسی مسئلے میں دشواری ہوئی۔ انہیں کسی نے مولانا کا بتایا۔ وہ دلی پہنچے۔ معلوم ہوا کہ مولانا حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ پر گئے ہوئے ہیں۔ وہاں جا کر مولانا سے ملے۔ مولانا نے اسی وقت ایک بچے سے دو اینٹیں منگوائیں، ایک پر خود بیٹھے، دوسرے پر ڈاکٹر ضیاء الدین کو بٹھایا۔ ایک کوئلہ پکڑا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر وہ مسئلہ حل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب دنگ رہ گئے۔ فرط عقیدت سے بولے، مولانا آپ میرے ساتھ چلیں، حضور نظام آپ کو اعلی منصب پر فائز کر دیں گے۔ مولانا نیازی نے ایک نظر پروفیسر پر ڈالی، اپنے سر سے ایک بال توڑا اور بولے، ڈاکٹر ترازو کے ایک پلڑے میں یہ بال رکھ دو اور دوسرے میں تمہارا نظام اپنی تمام دولت لے کر بیٹھ جائے، تب بھی ہماری پشم کا یہ بال بھاری رہے گا۔ دلچسپ بات ہے کہ بادشاہوں سے بے نیاز یہ صوفی عام آدمی کیلئے سراپا محبت تھا۔ مولانا کی شان بے نیازی اور گھر کام کرنے والی ملازماؤں کی حد درجہ احترام اور تکریم کے بہت واقعات رقم ہیں۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے کسی نے پوچھا، آپ کا پسندیدہ فعل کیا ہے۔ فرمایا، ٹوٹے ہوئے برتنوں کو جوڑنا۔ پوچھا گیا، دوسروں کی کون سی بات آپ کو بری لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا، انسانوں کو اچھوں اور بروں میں تقسیم کرنا۔ یہی صوفیاء کی زندگیوں کا مقصد رہا۔ وہ ہمیشہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتے رہے۔ یہ وصف قدرت کو اتنا پسند آیا کہ انہیں ہمیشہ کیلئے سربلند اور عزیز جہاں بنا دیا۔ کاش اپنی علم وفراست پر ناز کرنے والے اس سادہ نکتے کا ادراک کر سکیں۔