پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

ہم نے پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے کا اصولی خیر مقدم کرتے ہوئے ”بارش کا پہلا قطرہ” کے عنوان سے 18ستمبر کو حسبِ ذیل پوسٹ اپنے سوشل میڈیا پیج پر لگائی تھی: ”بدھ 17ستمبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سعودی عرب میں تزویری شراکت داری کا ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے’ اس پر عام روش سے ہٹ کر وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بذاتِ خود دستخط کیے اور قراردیا: دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ متصور ہوگا۔ یہ بلاشبہ بارش کا پہلا قطرہ اور امتِ مسلمہ کے دل کی آواز ہے’ مگر لازم ہے کہ یہ معاہدہ تصویری مظاہر (Optics) تک محدود نہ رہے بلکہ عملی شکل اختیار کرے یعنی لفظاً’ معناً اور عملاً یہ ایک تاریخی میثاق ثابت ہو جو امتِ مسلمہ کیلئے عہدِ نو کی تعمیر کی خِشتِ اول قرار پائے۔ اس میں آگے چل کر شرقِ اوسط کے دیگر ممالک’ خلیجی ریاستیں اور ترکیہ وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس کی شروعات کی ہیں’ ہماری خواہش ہے کہ اس کی تکمیل تک وہ کمر بستہ رہیں اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں تاکہ امتِ مسلمہ کی آس نہ ٹوٹے۔ خاص طور پر متموّل اور تیل وگیس کی دولت سے مالامال مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو داخلی اور خارجی قرضوں کے بار سے نجات دلائیں’ نیز حالیہ سیلاب نے پاکستان میں بے پناہ تباہی مچائی ہے’ تمام سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے ایک مشترکہ فنڈ قائم کریں تاکہ پاکستان یکسو ہوکر اپنی معیشت کی بحالی اور عالَمِ اسلام کے دفاعی استحکام پر توجہ دے سکے۔ ہم چاہیں گے کہ ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان اور امارتِ اسلامی افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی مددگار ثابت ہوں۔”

لیکن تاحال اس معاہدے کے خط و خال اور تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ آیا یہ محض ایک علامتی اعلان ہے یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے’ سرِ دست سب کچھ صیغہ راز میں ہے اور پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ ہمارے بہت سے احباب نے ہمارے خیر مقدم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا’ وہ اسے مسلکی تناظرمیں دیکھ رہے تھے لیکن یقینا ان کے علم میں ہو گا کہ اب ولی عہد محمد بن سلمان آہستہ آہستہ ملک کو لبرل ازم اور آزاد روی کی طرف لے جارہے ہیں’ وہ حج و عمرہ کو بھی سیاحت اور مِن جملہ ذرائع معیشت میں شامل کر رہے ہیں’ یہی وجہ ہے کہ حج و عمرہ کے مصارف سال بہ سال بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہماری سوچ یہ تھی کہ پاکستان کی افرادی قوت’ سائنس اور ٹیکنالوجی’ حربی سازو سامان اور حربی فنون میں مہارت سے استفادہ کیا جائے اور خلیجی ریاستوں کے مالی وسائل سے امتِ مسلمہ کا مشترکہ دفاعی’ سائنسی اور صنعتی ڈھانچہ تشکیل دے کر ان تمام شعبوں میں مغرب پر انحصار کو کم کیا جائے’ خود کفالت کو اپنی منزل بنایا جائے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کم از کم مدت کا تعین کیا جائے۔ اس وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھارت کا اثر و رسوخ اور معیشت میں حصہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔

اگر خلیجی ریاستیں تمام شعبوں کیلئے درکار انسانی افرادی قوت اور مہارتوں کیلئے پاکستان کو ترجیح دیں توپاکستان کی معیشت کو کافی سہارا مل سکتا ہے اور پاکستان میں بیروزگاری کی شرح صفر ہو سکتی ہے’ بلکہ کوئی بعید نہیں کہ پاکستان افرادی قوت کی کمی محسوس کرنے لگے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ سعودی عرب و خلیجی ریاستوںاور ترکیہ کے اشتراک سے ان سب ممالک میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں’ فنی تربیت کے ادارے بنائے جائیں اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ اگر پاکستان سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں بھارتی مفادات پر کاری ضرب لگا سکے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی اور بھارت مذاکرات پر بھی مجبور ہو سکتا ہے’ کیونکہ اس مادّی دور میں پیٹ کی طلب دل کی بات کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اگر یہ سنجیدہ نوعیت کا معاہدہ ہے تو اس کے خط و خال تیار کرنے اور اس پر عملدرآمد کیلئے مختلف ورکنگ گروپ بنائے جائیں اور ان کی سفارشات کی تکمیل کیلئے کم از کم مدت کا تعین ہو۔ ہمارے لیے تشویش اور حیرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل امریکا اور اہلِ مغرب نے اس معاہدے پر کسی تردّد یا تحفظات کا اظہار نہیں کیا، کیا اس کا سبب یہ تو نہیں کہ ان کے نزدیک یہ صرف دکھاوے کا کام ہے اور ابھی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ سے پاکستان’ ترکیہ’ سعودی عرب’ متحدہ عرب امارات’ قطر’ اردن’ مصر اور انڈونیشیا کے سربراہانِ حکومت کی جو مشترکہ ملاقات ہوئی’ اس کا ایجنڈا بھی سرکاری طور پر منظرِ عام پر نہیں آیا’ بعض ذرائع سے پتا چلا: اقتدار فلسطینیوں کو منتقل کرنے اور اس کے شہری ڈھانچے کی بحالی سے پہلے ”غزہ ٹرانزیشنل اتھارٹی” بنائی جائے گی۔ ٹرانزیشنل اتھارٹی سے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے انتقالِ اقتدار کا عبوری دور مراد ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کوکم وبیش پانچ سال کیلئے اس کا سربراہ مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی’ لیکن اس پر فلسطین کے زعما نے تحفظات کا اظہار کیا’ کیونکہ عراق پر امریکی حملے کے وقت ٹونی بلیئر کا کردار متنازع تھا۔ کہا گیا ہے: قیامِ امن کیلئے وہاں مسلم ممالک کی افواج کا تقرر ہو گا’ انڈونیشیا کے صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بیس ہزار افراد پر مشتمل اپنی افواج فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

یہ ساری خبریں قیاسات اور ذرائع کی فراہم کردہ ہیں۔ اب شرم الشیخ مصر میں حماس کی قیادت اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور ان کے نتائج کا انتظار ہے۔ (الحمدللہ نتائج آگئے اور غزہ میں جنگ بندی نافذ ہوگئی ہے۔ ادارہ) ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا ہے کہ حماس فلسطینی قیادت پر مشتمل عبوری اتھارٹی کو ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ ہے’ لیکن اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو’ خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ’ اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا اور اسرائیل کی جیلوں میں پابندِ سلاسل ہزاروں قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ بظاہر ٹرمپ منصوبے میں حماس کو منظر سے ہٹانے کا پروگرام شامل ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہی مطالبہ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ حماس اپنے مسلح شعبے کو ختم کردے’ لیکن اپنے وجود کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی……

وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے عجلت میں ٹرمپ منصوبے کا خیر مقدم کیا’ لیکن اس کی تفصیلات آنے کے بعد داخلی دباو کے سبب حکومت دفاعی پوزیشن میں آگئی اور اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اس سے برات کا اعلان کیا اور دوسرے 21نکاتی منصوبے کی حمایت کی’ کیونکہ اس میں واضح طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی تھی مگر جب حماس نے زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے تحفظات کے ساتھ ٹرمپ منصوبے کو بعض ترمیمات کے ساتھ قبول کرنے کی بات کی تو حکومتِ پاکستان کو بھی حوصلہ ملا اور دباؤ سے نکل آئی۔