یہ وہ لاہور نہیں

لاہور کے حوالے سے کچھ کہنے کا حق تو پرانے لاہوریوں کو حاصل ہے، میرے جیسے لوگ بھی البتہ خود کو لاہوری کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ لگ بھگ 30 برس سے یہاں پر مقیم ہوں۔ میرے بچے یہیں پرپیدا ہوئے، پروان چڑھے، تعلیم وغیرہ سب ادھر ہی حاصل کی۔ اب تو اپنے آبائی شہر دو دو سال تک جانا نہیں ہو پاتا۔ رب ہی جانتا ہے کہ کہاں کی مٹی کہاں جا کر ملے گی، مگر میری تو خواہش ہے کہ وقت آخریں بھی ادھر آئے اور مٹی بھی لاہور کی نصیب ہو۔اس کا البتہ افسوس ہے کہ ہم نے اپنے سامنے لاہور کو بدلتے ہوئے دیکھا۔ اس کا وہ حسن، رنگینی، دلکشی اور فسوں بتدریج تحلیل ہوتا گیا۔ آج کا لاہور کنکریٹ کا ایسا سنگی شہر ہے جس کی مناسبت 30 سال پہلے کے لاہور سے نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 30 سال پہلے لاہور آیا تو یہ دھیمے سروں کا ایک حسین شہر لگا، جس نے اپنے بازو اس بے خانماں مسافر کیلئے کھول دیے تھے۔ ایک زمانے میں کراچی کو غریب نواز شہر کہا جاتا تھا، ہم نے تو یہ وصف لاہور میں بھی کمال درجے پر پایا۔ کھانا سستا اور عمدہ۔ گلی محلے میں ریڑھی پر ایسے لذیذ نان چنے، بونگ شوربہ مل جانا کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ جگہ جگہ پر ڈھابے، روایتی کھانوں کے مرکز جہاں مزے کے کھانے مل جاتے۔ ہریسہ، نہاری، حلیم، پٹھورے، مختلف انداز کے کباب، روایتی انداز کی مچھلی اور نجانے کیا کیا۔ اب تو لگتا ہے مہنگائی کا طوفان ہر شے کو لے ڈوبا ہے۔

لاہور کی بڑی وجہ شہرت یہاں کا علمی، فکری اور ثقافتی ماحول رہا ہے۔ سرسید احمد خان کوئی سوا سو سال قبل لاہور آئے تو لاہوریوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں زندہ دلانِ لاہور کا نام دیا۔ یہ شہرِ زندہ دلان طویل عرصے تک اپنے شعبوں کے ممتاز ترین افراد سے آباد تھا۔ شاعری، ادب، تنقید، تحقیق، میلے، تہوار۔ ہر حوالے سے لاہور کے دلنشیں رنگ نمایاں تھے۔ ایسے ایسے قدآور لوگ ایک ہی وقت میں یہاں موجود تھے کہ اس زمانے کے لاہوریوں پر رشک آتا ہے۔ آپ خود تصور کریں کہ علمی اعتبار سے اسی شہر میں ایک طرف اچھرہ میں مولانا مودودی کی عصر کی محفل تھی، مولانا اصلاحی کا درس قرآن ہوتا، غلام احمد پرویز کی اپنی علمی محفل سجتی، اس کے علاوہ بھی کئی علمی، مذہبی محافل ہوتیں۔ اس کہکشاں کے رنگوں کی جھلک اس زمانے کی یادوں پر مشتمل کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

29 سال پہلے جب ہم لاہور وارد ہوئے تو صحافت کے علاوہ ایک بڑی کشش لاہور کے علمی ادبی ماحول کاحصہ بننے کی خواہش تھی۔ لاہور کی پرانی یادوں پر مشتمل کئی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ اس فسوں خیز ماحول کا تصور کر کے آدمی انبساط سے سرشار ہوجاتا۔ پاک ٹی ہاؤس جانے کی خواہش تھی۔ لاہور کی ادبی ڈائریاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا، حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں کی تفصیل جہاں باقاعدگی سے شائع ہوتیں۔ یہی سوچتے لاہور پہنچا کہ ٹی ہاؤس میں ہونے والی بحثیں کس رنگ کی ہوں گی، کیا کیا کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا بڑا شہرہ سنا تھا۔ برٹش کونسل اور امریکن سینٹر کی لائبریریوں کی بھی دوستوں سے تعریف سنتے رہے تھے۔

افسوس کہ اپنی آنکھوں سے لاہور کا وہ پورا کلچر بدلتے دیکھا۔ یہ خوش گمانی تو لاہور آتے ہی ہوا ہوگئی کہ یہاں پر ماضی کی طرح کے ادبی حلقے اور فکری نشستیں جاری ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور دانشور جن میں شامل ہوتے اور نوجوانوں کی تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ بکھر چکا ہے۔ وہ لوگ رخصت ہوگئے، جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ جو بچے، وہ اپنے اپنے گھروندوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کچھ بڑھاپے کے باعث متحرک نہیں رہے۔ بعض کو اب ہجوم بھاتا ہی نہیں۔ کسی نے اپنے گھر میں کبھی کوئی ستائشی نشست جما لی، جس میں دو چار مداحین اکٹھے ہوگئے۔ مشروب مغرب کے پیالوں پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے۔ کچھ یہ بھی ہوا کہ ٹی ہاؤس کا کھلا ڈلا درویشانہ ماحول اب ہمارے سپر اسٹار ادیبوں، دانشوروں کو راس ہی نہیں تھا۔ اس کی جگہ پانچ ستارہ ہوٹلوں اور اعلیٰ پائے کے ان کلبوں نے لے لی، جہاں کی سالانہ فیس لاکھوں اور ممبرشپ کے لیے کروڑ پتی ہونا شرط تھی۔ وہاں وہ گاہے بگاہے نشست جماتے اور اشرافیہ کو اپنے علم وہنر سے مسحور کرتے۔ شروع میں ہم حلقہ کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے رہے، پیچھے بیٹھنے والے ایک مبصر کے طور پر۔ سچ تو یہ کہ کچھ مزا نہ آیا۔ لگا کہ یہاں پر آنے والے بہت سے لوگوں کو ابھی دنیا بدل جانے کی اطلاع ہی نہیں ملی۔ یہ خبر ہی نہیں پہنچ سکی کہ اب 70 اور 80 کا عشرہ نہیں، بلکہ نئی صدی، نیا ملینئم شروع ہوچکا ہے۔ وہی لگے بندھے تصورات، گھسی پٹی تھیوریاں، ادبی مناقشے اور سب سے بڑھ کر تحریر سے زیادہ چہرہ دیکھ کر داد، بے داد دینا۔ پرانے لوگوں میں سے سید قاسم محمود جب تک زندہ تھے، وہ فعال رہتے، خاص اجلاسوں میں شامل بھی ہوجاتے۔ بہت سے سینئر ادیب اور لکھاری البتہ شریک نہ ہوتے۔ ادبی محفلوں کی بے رونقی بڑھتی گئی۔ (یہ نائن الیون کے آس پاس کی بات کر رہا ہوں یعنی اٹھانوے، ننانوے سے 2001، 2002 تک۔)

لیجنڈری شخصیات کی مالا بھی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ موتی جیسے وہ لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے رہے۔ افسوس کہ ان کی جگہ لینے کے لیے دور دور تک کوئی موجود نہیں۔ ہر ایک کے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک نہیں بھر سکا۔ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اشفاق احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر انیس ناگی، شہزاد احمد، سید قاسم محمود اور ہمارے ہردلعزیز امجد اسلام امجد۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ ان میں بعض ایسے بھی تھے، جو آخری عمر تک محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر محفلیں سجاتے رہے۔ اشفاق صاحب اگرچہ پوش علاقے کے ایک شاندار گھر میں مقیم تھے، گیٹ پر ایک چاق و چوبند گارڈ تعینات تھا، بغیر وقت لیے ملنا آسان نہیں تھا۔ اس گھر کے دروازے البتہ نوجوانوں پر کھلے تھے۔ کوئی بھی نوجوان فون پر وقت لے کر اشفاق صاحب سے مل سکتا تھا۔ بابوں کے قصے کہانیاں، روحانیت میں ڈوبی حکایتیں سننے کے ساتھ ان کی فراخدلانہ میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا۔ دو چار بار ہم بھی حاضر ہوئے، گھنٹوں پر محیط ان نشستوں کی یادیں آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں موجود ہوتے۔ ان کے گرد احباب کا جمگھٹا لگا رہتا۔ قاسمی صاحب ادیب تو بڑے تھے ہی، مگر ادیب ساز بھی کمال کے تھے۔ میں تو ایک آدھ بار ہی وہاں جا سکا، مگر ہمارے کئی دوست وہاں جاتے رہے۔ منیر نیازی یکسر مختلف مزاج کے انسان تھے۔ ان کا ایک مخصوص حلقہ احباب تھا، ہر ایک نیازی صاحب کے مزاج کو نہیں سمجھ پاتا نہ ہی ان کی نظر میں جچنا آسان کام تھا۔

پاک ٹی ہاؤس کو ہم نے اپنے سامنے بند ہوتے اور پھر اسے دوبارہ سے شروع ہوتے دیکھا۔ اس کا دوبارہ شروع ہونا عطاالحق قاسمی صاحب کا کریڈٹ ہے۔ ان کی کاوش سے ارباب اقتدار اس جانب مائل ہوئے۔ پاک ٹی ہاؤس صرف چائے خانہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی تھا۔ نصف صدی سے زیادہ علمی، ادبی، فکری اور تہذیبی سفر کا عینی شاید۔ ایسے تہذیبی مراکز زندہ رہنے چاہئیں۔ پاک ٹی ہاؤس میں اب بھی حلقہ ارباب ذوق اور بعض دیگر تنظیموں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس کے باہر انارکلی کا مشہور پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔ ہر اتوار کو کتابوں کے متلاشی وہاں کا رخ کرتے اور اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ وہاں سے بسا اوقات کئی شاندار کتابیں بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ادبی مراکز صرف عمارتوں سے تو نہیں بنتے، اصل اہمیت تو ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اگر فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں تو وہ محفل کی صورت دھار لیتا ہے۔ ایسے لوگ کہاں سے اب لائیں؟ وہ نوجوان کہاں سے لائیں جو چائے کی پیالی پر بحث مباحثے، نظریات ڈسکس کرتے، دنیا بدل جانے کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ خواب دیکھنے والے کہاں سے آئیں گے؟

ایسا نہیں کہ لاہور مردہ شہر ہے، اس میں زندگی آج بھی دوڑتی ہے، اس کے رگ وپے میں خون دوڑتا ہے، مگر وہ پہلے سی بات نہیں رہی۔ شاید ہم نے اپنے سامنے اس شہر کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، اس لیے اس میں پرانی پرچھائیں ڈھونڈتے ہیں۔ ممکن ہے کسی نوجوان کو ایسا کچھ محسوس نہ ہو۔ مگر وہی بات کہ آج کے لاہور میں کچھ نہ کچھ مسنگ ضرور ہے۔ جیسے پھولوں کی خوشبو کم ہوجائے، تتلی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں، جیسے باد صبا میں بادِ سموم کی آمیزش ہوجائے!