دینی علوم کو محفوظ کرنے کی مسلمانوں کی ایک عظیم تاریخ ہے جس کی بدولت متقدمین نے علوم کو محفوظ کرکے متاخرین تک پہنچایا۔ ان دینی علوم کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف علوم دینیہ (حدیث، فقہ وغیرہ) کے کتابوں کے پورے متن (پوری کتاب) حفظ یاد کی جاتی تھی۔ اس تناظر میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے یہ فرمایا کہ: ایک زمانے میں یہ کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی اور مسائل سمیٹ دیا جائے، یہ کوئی احمقانہ کام نہیں تھا کہ صاحب! انہوں نے مغلق کردیا اور طلبہ کے لیے مشکل بنادیا۔ بلکہ بڑی حکمت پر مبنی تھا اور اس زمانے کی ضرورت کی بنیاد پر تھا۔ وہ ضرورت یہ تھی کہ ان علما کا ایک اصول تھا کہ کم ازکم ہر فن کا ایک متن حفظ ہوجانا چاہیے اور حفظ کرنے کا آسان راستہ یہی تھا کہ عبارت کم سے کم ہو۔ (حوالہ: حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، کامیاب تدریس کے اصول، ادارة المعارف، کراچی)
الحمدللہ امتِ مسلمہ میں آج بھی بعض ایسے صاحبانِ علم موجود ہیں جو کہ متن یاد رکھنے کی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ بعض جدیدیت سے متاثر ایسے صاحبانِ علم موجود ہیں جو کہ متن یاد کرنا تو درکنار، کتابوں کی مراجعت اور مسائل کی مشق کرنے سے بھی تخصص کے طلبہ کو متنفر کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں اور ان کاموں کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے کی مشق کرواتے ہیں۔ذیل میں ہم ایک ایسے ہی صاحبِ علم کی بات نقل کرتے ہیں جو کہ وہ مدارسِ دینیہ کے طلبہئے کرام کو مصنوعی ذہانت (چیٹ جی پی ٹی) کے استعمال کی ترغیب دینے کے لیے کررہے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے وہ درجِ ذیل مکالمہ کرکے کثیر الانتخابی سوالات کا امتحانی پرچہ بنوارہے ہیں تاکہ وہ طلبہ کا امتحانی جائزہ لے سکیں۔
آپ مشین کو انسان کی طرح سوچنا سمجھنا سکھا دیں۔ جیسے آپ کسی موضوع کی تیاری کرتے ہیں کہ آپ تفسیر کی دس کتابیں دیکھتے ہیں، حدیث کی دس کتابیں دیکھتے ہیں، موجودہ تحقیق دیکھتے ہیں، اعداد و شمار دیکھتے ہیں، پھر خلاصہ عوام کے سامنے پندرہ بیس منٹ میں لے آتے ہیں۔ آپ میں سے جو دنیا میں بڑا سے بڑا ریسرچر بھی دنیا میں ہوگا وہ ایک وقت میں کتنا دیکھ لے گا؟ ہم جب پی ایچ ڈی، ایم فل کا مقالہ لکھتے ہیں تو دو سو، تین سو مقالے دیکھ لیتے ہیں، وہ بھی سرسری طور پر دیکھ لیتے ہیں، پورا نہیں پڑھتے۔ اے آئی کے پاس دنیا کا جتنا کڑوروں، اربوں مواد ہے، عربی، اُردو، انگریزی، سنسکرت ساری زبانوں میں، جتنا تحقیقی مقالے، جتنا کچھ لکھا گیا ہے اے آئی کہ پاس وہ سارا مواد ہے۔ آپ جب سوال پوچھتے ہیں تو یہ سیکنڈوں میں ساری دنیا کے مواد کو ذہن میں گھما تا ہے اور آپ کو جواب دیتا ہے۔اب آپ یہ کہیں گے کہ یہ کس کا ورژن بیان کرے گا؟ مثال کے طور پر میں اگر ایک سوال کروں جس میں دیوبندی بریلوی اختلاف ہے، یہ کیا بولے گا؟ یہ اتنی متوسط بات کرے گا کہ نہ دیوبندی ہوگا نہ بریلوی ہوگا!
مجھے درجہ عالیہ کے طلبہ، منتہی طلبہ کے مطابق سوال بنا کر دو۔ آپ اس کے ساتھ (یعنی چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ) یہ غلطی نہ کیجئے گا کہ آپ اس کے کہیں قدوری یا ہدایہ سے سوال بنا؟ کیونکہ یہ نہیں بنائے گا۔ یہ یونیورسٹی کے الگوریتھم پر ہے۔ یہ فن پر بات کرے گا، کتاب پر بات نہیں کرے گا۔ قدوری پر جو آپ سوال بنوائیں گے تو یہ فقہ اسلامی کے متوسط درجے کے طالبعلم کا سوال بنائے گا، عبارت نہیں دے گا۔ جیسے ہمارے سارے سوالات ہدایہ، دورہ حدیث تک حل للعبارات چل رہی ہے۔ یہ کوئی بات ہے؟ دورہ تک بندہ پہنچ گیا بھئی ترجمہ ہی پوچھے جارہے ہو۔
قارئین مذکورہ بالا اقتباسات بار بار پڑھیے۔ آپ کو حیرانگی ہوگی کہ کس طریقے سے حق اور باطل کو گڈ مڈ کیا گیا ہے۔ پھر چونکہ سائنسی تحقیق اور مصنوعی ذہانت کی باریکیوں کا علم نہیں، لہٰذا مصنوعی ذہانت سے اتنے متاثر ہیں کہ اس سے متعلق بے سر و پا باتیں طلبہ کی ذہنوں میں راسخ کررہے ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں مقالے سرسری طور پر دیکھے جارہے ہیں اور پورے نہیں پڑھے جارہے۔ غالباً اسی وجہ سے عالمی معیار کی سائنسی تحقیق نہیں کرپارہے۔ پھر حل للعبارات پر یعنی روایتی مدارسِ دینیہ کے تدریس کے طریقہ کار پر بھی بے جا تنقید کررہے ہیں۔ ہم یہ گزارش کریں گے کہ آج مصنوعی ذہانت کے اس جدید دور میں متن یاد کرنے کی ضرورت نہ صرف یہ کہ باقی ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے اکابر طلبہ کے طرز پر رہتے ہوئے علومِ دینیہ کی حفاظت کریں۔