روزنامہ اسلام کی مسلسل کامیاب اشاعت کے 24 سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر قارئین، صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے روزنامہ اسلام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر مبارک باد کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔
روزنامہ اسلام نے 19 ستمبر 2001 کو اپنے صحافتی سفر کا آغاز ایک نئی روایت کے ساتھ کیا، کسی بھی جاندار کی تصویر کے بغیر شائع ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا روزنامہ تھا۔ اس سے قبل کسی بھی جاندار کی تصویر کے بغیر ایک مکمل روزنامے کی اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ میں کوئی مثال موجود نہ تھی۔
روزنامہ اسلام نے عزم و استقامت کے ساتھ منفرد شان سے جس وقت اپنے سفر کا آغاز کیا، تب اخبارات میں رنگین تصاویر اور شوبز کی چکاچوند کی چٹخارے دار کوریج کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، لیکن روزنامہ اسلام نے اس روش کے برخلاف اپنے نظریاتی پس منظر میں جاندار کی تصاویر سے مکمل اجتناب کیا۔
ابتدا میں لوگوں کا خیال تھا کہ اس انداز کے ساتھ اخبار زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گا، مگر قارئین کے بہت بڑے حلقے نے روزنامہ اسلام کی اس نظریاتی استقامت کو سراہا اور بڑی تعداد میں روزنامہ اسلام کے ساتھ جڑ گئے۔ آج اس سفر کو 24 برس مکمل ہوچکے ہیں۔
صحافتی سفر کا ایک اہم سنگ میل عبور کرنے پر قارئین کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزنامہ اسلام نے دو نسلوں کی نظریاتی تربیت اور فکری آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
بہت سے قارئین نے بطور خاص روزنامہ اسلام کے دو مایہ ناز ہفتہ وار رسالوں “بچوں کا اسلام” اور “خواتین کا اسلام” کو بھی یاد کیا اور بتایا کہ کیسے ان رسالوں کی بدولت ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔
مشرق وسطیٰ امور کے تجزیہ کار علی ہلال نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ روزنامہ اسلام نے 24 برس کا سفر طے کیا۔ صحافت کے بے لق وق صحرا پر اس وقت جو خزان زدہ فضاؤں کا راج ہے، اس میں بھی روزنامہ اسلام نے اپنی دستار کو سنبھالا ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کبھی بے ہودہ اشتہارات اور گلیمر سے آلودہ ہوئے بغیر اخبار کا نکلنا ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ ایسے میں پہلے ہفت روزہ ضرب مومن اور پھر روزنامہ اسلام نے منفرد انداز میں آکر ہمارا رابطہ خبروں کی دنیا سے قائم کیا۔ یہ ایک فیڈ ورک تھا۔ دماغ میں نظریاتی صحافت اور تصور بٹھانے کی کوشش تھی۔
صحافی و کالم نگار عابد محمود عزام نے لکھا کہ یہ اخبار ایسے وقت میں منظر عام پر آیا جب دشمن قوتیں اسلام کے خلاف متحد ہو رہی تھیں۔ اس نازک دور میں جہاں پڑوسی ملک میں اسلام پسند اسلام دشمن طاقتوں سے عسکری میدان میں برسرِپیکار تھے، وہیں پاکستان میں روزنامہ اسلام صحافتی محاذ پر اسلام کا دفاع کر رہا تھا۔ اسے کئی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ بارہا پابندیاں لگیں، دھمکیاں دی گئیں، مگر یہ اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹا۔
جعمیت علمائے اسلام کے سوشل میڈیا ونگ کے ذمے دار مولانا قطب الدین عابد نے روزنامہ اسلام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ اس اخبار نے ایک ایسے وقت میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا جب مادہ پرستی اور اشتہاری دباؤ صحافت کی سمت متعین کر رہے تھے۔ روزنامہ اسلام نے ان تمام چیلنجوں کے باوجود اپنی شناخت اور نظریاتی مزاج برقرار رکھا، جو اس کی اصل کامیابی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے قارئین نے کمنٹس کے ذریعے روزنامہ اسلام کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کیا، پرانی یادیں تازہ کیں اور بتایا کہ کیسے روزنامہ اسلام نے ان کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔



واضح رہے کہ چوبیس سال مکمل ہونے کے ساتھ ہی روزنامہ اسلام کی مسلسل اشاعت کے سلور جوبلی سال کا بھی آغاز ہوگیا اور 2026 میں روزنامہ اسلام کے صحافتی سفر کی سلور جوبلی ہوگی۔