وطنِ عزیزکو ہر سال سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ پیش گوئی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ اس بار بارشوں کا تناسب کیا ہو گا اور اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جنم لینے والے خطرات ہیں جن کے اثرات اس مسئلے کو اور بھی زیادہ گمبھیر اور غیریقینی بنا دیتے ہیں۔ رواں برس خیبرپختونخوا سے لے کر کراچی تک تقریباً سارا ملک بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں آیا ہے۔ سیلاب اور اربن فلڈنگ کی زد میں آنے والے علاقوں کی وڈیوز دیکھ کر دل دہل جاتا ہے، لوگوں کی بے بسی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے جس طرح کی تباہ کاریاں اب ہو رہی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سیلابی صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف، حکومت پنجاب بالخصوص وزیراعلیٰ مریم نواز کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان اور دیگر سول اداروں پی ڈی ایم اے، ریسکیو 1122، محکمہ آبپاشی، محکمہ صحت، لائیو سٹاک اور سول ڈیفنس کے شانہ بشانہ پنجاب پولیس کی انسانی خدمت کے جذبے نے عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب سے جہاں ہزاروں بستیاں اجڑ گئیں، کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے اور لوگ بے سروسامانی کی تصویر بن گئے۔ کئی اضلاع میں نہ صرف عوام کی زندگی مفلوج ہوئی بلکہ وہ جانی و مالی نقصان کے بڑے خطرے سے دو چار ہیں۔ وہاں متعلقہ سول و عسکری اداروں کی امدادی سرگرمیاں و خدمات قابلِ تحسین ہیں۔
دیگر محکموں کے ہمراہ پنجاب پولیس نے بھی، پہلے جس کا نام سن کر ایک ظالم اور جابر پولیس کا تصور ذہن میں آتا تھا، اس مشکل گھڑی میں امن و امان برقرار رکھنے کا فرض نبھانے کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کے تحفظ اور ریسکیو سرگرمیوں میں جو مستعد دکھائی دی وہ بھی قابلِ تحسین ہے۔ سیلابی پانی کے درمیان جب لوگ اپنے گھروں، مویشیوں اور قیمتی سامان کے ساتھ پھنس گئے تو افواج پاکستان و متعلقہ سول اداروں کے ساتھ پنجاب پولیس بھی میدانِ عمل میں پیش پیش رہی۔ اب تک ہزاروں متاثرہ افراد سمیت مویشیوں کو بھی سیلابی علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ہے۔ ریلیف کیمپوں میں پناہ گزین متاثرین کو خوراک، صاف پانی اور ادویات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ مسلسل کوآرڈی نیشن رکھتے ہوئے دریاؤں اور نشیبی علاقوں میں پولیس کے کنٹرول رومز اور پٹرولنگ سے سیلابی صورتحال کی مسلسل نگرانی جاری ہے۔ بلاشبہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ آئی جی پنجاب پولیس نے ان سرگرمیوں کے حوالے سے کہا کہ صوبے کو اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے لہٰذا بے گھر افراد کی مدد اور بحالی تمام شہریوں کی قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
پنجاب میں آنے والے حالیہ تباہ کن سیلاب نے جہاں ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا وہاں یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ کسی بھی ناگہانی آفت میں ریاستی اداروں کی کارکردگی کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ حالیہ سیلابی صورتحال میں ریسکیو 1122اور دیگر امدادی اداروں کے ساتھ پنجاب پولیس نے بھی متاثرہ عوام کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سیلاب متاثرین کے لیے نان سٹاپ ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کے تحت لاہور سمیت صوبہ بھر میں 15ہزار سے زائد پولیس افسران و اہلکار، سات سو سے زائد گاڑیاں، 288موٹر بائیکس، 74موٹر بوٹس اور دیگر وسائل متاثرین کے انخلا اور امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اب تک 74ہزار سے زائد متاثرین کو ریسکیوکیا جا چکا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے پچاس ہزار سے زائد مویشیوں کا محفوظ انخلا بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ دریاؤں کے کنارے آباد دیہات اور آبادیوں میں پٹرولنگ باقاعدگی سے جاری ہے۔ دریا کی چیک پوسٹوں پر تعینات ٹیمیں چوکس ہیں۔ اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے سات سو سے زائد دیہات کو خالی کرایا جا چکا ہے۔ لاہور میں اب تک 200سے زائد افراد کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات تک پہنچایا جا چکا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں مسلسل گشت جاری ہے تاکہ شہریوں کے جان و مال کو محفوظ رکھا جا سکے۔ راوی میں اونچے درجے کے سیلاب کے پیشِ نظر لاہور میں ماہر غوطہ خوروں کی خدمات بھی لی گئی ہیں۔ در حقیقت اس ساری صورتحال میں پاک فوج و پولیس، ریسکیو و متعلقہ اداروں کے جوان ریلیف اور بچاؤ کی کوششوں میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فیلڈ افسران سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ عسکری و سول اداروں کے فرض شناس افسران و اہلکار اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر نہ صرف لوگوں کو بچانے میں مصروف ہیں بلکہ وہ متعدد مقامات پر مل کر ریسکیو اور ریلیف کیمپوں میں کھانے پینے کی اشیا بھی تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ خدمات اس بات کی دلیل ہیں کہ نہ صرف افواجِ پاکستان بلکہ پولیس بھی صرف قانون نافذ کرنے اور امن و امان قائم رکھنے والے ادارے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ یہ طرزِ عمل پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی خلیج کو کم کرنے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب پولیس حالیہ سیلاب میں صرف قانون کے نفاذ تک محدود نہیں رہی بلکہ ایک خدمت گزار ادارے کے طور فرض نبھا رہی ہے۔ یہ اقدامات پولیس کے مثبت چہرے کو اجاگر کرتے ہیں اور عوامی اعتماد کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہیں۔
انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پولیس فورس مختلف ناموں سے سماج سے جرائم کے خاتمے، قیامِ امن اور قانون کی بالا دستی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس ڈیوٹی میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ وطنِ عزیز میں بھی نائن الیون کے بعد بڑھتی دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وجہ سے پولیس کی روایتی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔ پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کے جوانوں نے بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں شہادتیں پائی ہیں اور شجاعت و بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ آج حکومتی و سیاسی دخل اندازی اور پولیس کو سیاسی و گروہی فائدے کیلئے استعمال کرنے کی روش کی وجہ سے یہ اہم ترین شعبہ روبہ زوال ہے۔ تاہم حالیہ ناگہانی قدرتی آفت کے دوران پولیس کا انسانی خدمت کا روشن پہلو تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ چنانچہ اب وقت آگیا کہ محکمہ پولیس کو سیاست سے مبریٰ کیا جائے تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو اور وہ صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کر سکے، اس سے عوام کی نظر میں پولیس کا ایک بہتر امیج ابھرے گا جس سے اس ادارے کے حوالے سے موجود عوامی شکایات کا ازالہ بھی ہو سکے گا۔
چونکہ امن و امان کی کسی بھی صورتحال میں پولیس فرنٹ لائن پر ہوتی ہے، اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ محکمہ پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ پولیس زیادہ تندہی سے اپنے فرائض ادا کر سکے۔ حالیہ سیلابی صورتحال میں افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ سول ادارے، ریسکیو، انتظامیہ اور پنجاب پولیس عوام صرف ریاستی ادارے نہیں بلکہ عوام کے لیے سہارا، امید اور ان کے نگہبان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر سیلاب زدگان کو بچانے، ان کو ریلیف پہنچانے کا یہی جذبہ اور خدمت کا تسلسل برقرار رہا تو عوام کی نظر میں ان اداروں کا مقام مزید بلند ہو جائے گا۔