لندن/ برسلز/منامہ/مقبوضہ بیت المقدس/غزہ/تل ابیب:بیلجیم نے اسرائیل پر سخت پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
فرانس،برطانیہ،آسٹریلیا اور کینیڈا کے بعدبیلجیم کے وزیرخارجہ میکسم پریوٹ نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہاکہ وہ رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، انہوں نے اسرائیل پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کردیا۔
بیلجیم کے وزیرخارجہ نے لکھا کہ اسرائیل کے خلاف قومی سطح پر12سخت پابندیاں نافذ کی جارہی ہیں، ان میں غیر قانونی اسرائیلی آبادکاریوں سے مصنوعات کی درآمد پر پابندی، اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ سرکاری معاہدوں کا دوبارہ جائزہ اور اسرائیلی پروازوں اور ٹرانزٹ پر پابندی سمیت دیگر شامل ہیں۔
ادھربرطانیہ نے بھی غزہ میں فوری اور بلا مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ جنگ بندی نہ ہوئی تو رواں ماہ فلسطین کو تسلیم کرنیکاباضابطہ اعلان کردیں گے۔
غیرملکی خبرساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہاکہ اگر غزہ میں جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو برطانیہ رواں ماہ ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا۔
انہوں نے کہاکہ غزہ میں ہر گزرتا روز مزید تباہیاں لا رہا ہے، خوراک کی کمی سے غزہ کے5سال سے کم عمر ایک لاکھ32ہزار سے زائد بچوں کو جان کا خطرہ ہے،اسرائیلی حکومت غزہ میں ضروری امداد کی فراہمی سے مستقل انکاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں جاری قحط قدرتی نہیں، یہ اکیسویں صدی میں انسان کا بنایا ہواقحط ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکی جائیں۔برطانوی وزیرخارجہ نے کہا کہ غزہ کی صورتحال بہتر بنانے کا واحد حل فوری اور بلامشروط جنگ بندی ہے، ڈیوڈ لیمی نے اسرائیل سے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ بھی فوری روکنے کا مطالبہ کردیا۔
ادھر نسل کشی پر تحقیق کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم انٹرنیشنل جینوسائیڈ اسکالرز ایسوسی ایشن نے اسرائیلی حملوں سے فلسطینیوں کی اموات کو نسل کشی قرار دے دیا۔
دوسری جانببحرین میں نئے اسرائیلی سفیر کی تقرری پر دارالحکومت منامہ میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔مظاہرین نے اسرائیلی سفارتخانے کے باہر جمع ہوکر نئے سفیر کی تقرری کے خلاف نعرے لگائے، نئے سفیر کی تصاویر بھی نذرآتش کردیں، اس دوران مظاہرین نے اپنی حکومت سے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھامے شہریوں نے غزہ کے حق میں اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کیخلاف بھی آواز بلند کی۔اس دوران سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔
دریں اثناء فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کے انتظام میں عرب یا بین الاقوامی شراکت سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں 2 لاکھ فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دنیا صرف مذمت تک محدود ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی بین الاقوامی فیصلوں پر عمل درآمد کی عدم موجودگی کے عادی ہوچکے ہیں۔
ہمارے پاس فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کے 1000 فیصلے ہیں، جن میں سے کوئی بھی نافذ نہیں ہوا۔ فلسطینی صدر نے کہا کہ غزہ واقعی بھوک کا شکار ہے جو جنگ میں نہیں مرا وہ بھوک سے مر رہا ہے، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینی عوام کے خاتمے پر مصر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو چاہتا ہے کہ وہ وزیر اعظم رہے تاکہ اسرائیل میں اس کے خلاف مقدمہ نہ ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ اردن اور مصر نے شاندار موقف اختیار کیا ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو بے دخلی سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی سفارتی سطح پر غزہ میں جنگ روکنے میں سرگرم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم غزہ کے انتظام کے لئے تیار ہیں اور اس کے لئے تمام وسائل موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 149 ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور کئی سربراہان نے مجھے فلسطین کو تسلیم کرنے کی خواہش سے آگاہ کیا ہے ہم اقوام متحدہ جائیں گے تاکہ فلسطین کو مکمل رکنیت ملے۔فلسطینی صدر نے زور دیا کہ اوسلو معاہدہ 18 لاکھ فلسطینیوں کو وطن واپس آنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اوسلو معاہدہ ختم یا معطل کرنے کی کوشش کی مگر یہ معاہدہ دو طرفہ ہے اور کسی ایک طرف سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ادھر غزہ پر کنٹرول کے امریکی منصوبے کو فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے رد کر دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق حماس نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر امریکیوں اور اسرائیلیوں کے حوالے کرنے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔
حماس کے سیاسی شعبے کے رکن باسم نعیم نے اس اسرائیلی تعاون سے بننے والے امریکی منصوبے کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ غزہ برائے فروخت نہیں ہے۔حماس کے ایک اور ذمہ دار نے بھی کہا ہم اس طرح کے تمام منصوبوں کو مسترد کرتے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کے گھروں اور سرزمین سے نکالنا ہے۔
ادھرغز میں اسرائیلی فوج کی سفاکیت انتہا کو چھونے لگیں، قابض فوج نے ایک اور حاملہ خاتون سمیت100سے زائد فلسطینی شہید کردیے۔عرب میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے شاتی پناہ گزین کیمپ میں گھر پر راکٹ حملہ کردیا جس کے نتیجے میں گھر کا ایک حصہ تباہ ہوگیا جبکہ ایک حاملہ خاتون بھی جان گنوا بیٹھی۔
رپورٹس کے مطابق جس گھر کو اسرائیلی فوج نے نشانہ بنایا وہاں کمرے سے کھلونے اور بچوں کے کپڑے ملے جو غالباً خاتون نے اپنے ہونے والے بچے کے لیے تیار کر رکھے تھے۔ غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداد63ہزار557ہوگئی جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار 660 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
ادھرغزہ میں قحط کی صورت حال بھی ختم نہ ہوسکی، بھوک کی شدت کے باعث مزید 9 فلسطینی دم توڑ گئے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری کے باعث اب بھی سڑکوں پر ملبے تلے کئی افراد دبے ہوئے ہیں اور اسرائیلی فوج کی جانب سے ریسکیو اہلکاروں کو ملبہ ہٹانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
علاوہ ازیںاسرائیلی ریاست اوریہودی آباد کار کامیاب، مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کو پانی قلت کا سامنا ہے۔ غزہ میں قحط سے ہونے والی ہلاکتوں کے کامیاب اسرائیلی ریاست کے تجربے کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے لیے پانی کی قلت ممکن بنا لی گئی ہے۔
پورے مغربی کنارے میں فلسطینی شہری پانی کی اس قلت پر پریشانی ظاہر کر رہے ہیں۔گھروں اور کھیتوں کھلیانوں میں پانی کی سخت قلت جاری ہے۔حتیٰ کہ فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر والے شہر رام اللہ میں بھی پانی کی اسی قلت سے فلسطینی شہری دوچار ہیں۔