گزشتہ دنوں پوری دنیا کی نظر امریکی ریاست الاسکا پر تھی جو 1867ء سے قبل روس کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ 15اگست کو یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے مابین اہم ملاقات ہوئی۔ دونوں ممالک کے صدور کے مابین چار سال بعد یہ پہلی ملاقات تھی جس میں تین گھنٹے تک تقریباً یوکرین پر بات ہوتی رہی۔ یوکرین جنگ پر امریکا اور روس کے صدور کی گفتگو کی کامیابی عالمی سیاست کی سمت کا تعین کرے گی۔ روس اور یوکرین کے درمیان ساڑھے تین برس سے جنگ جاری ہے مگر اس تنازعے کا دائرہ اب صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ عالمی سیاست دفاعی اتحادوں اور طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اپنے دوسرے دورکی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ امریکا کے صدر بنے تو روس یوکرین جنگ 24گھنٹے میں بند کروا دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ 2022ء میں جوبائیڈن کی جگہ اگر وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ ہوتی ہی نہیں۔
یوکرین نے 2014ء میں کریمیا پر روسی قبضے کے بعد مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس کا سب سے نمایاں پہلو نیٹو میں شمولیت کی خواہش ہے۔ فروری 2022ء میں روسی حملے کے بعد یوکرین نے باضابطہ طور پر نیٹو کی رکنیت کی درخواست دی مگر اب تک نیٹو نے اسے رکن نہیں بنایا۔ اس تاخیر کی بڑی وجہ نیٹو کا اپنا آئینی ڈھانچہ ہے۔ نیٹو کا آرٹیکل پانچ کہتا ہے کہ کسی ایک رکن پر حملہ پورے اتحاد پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ایسے میں اگر یوکرین کو رکن بنایا جاتا ہے تو نیٹو کو روس سے براہِ راست جنگ لڑنا پڑے گی اور یہ وہ فیصلہ ہے جس کے لیے مغرب تیار نظر نہیں آتا۔ نیٹو یوکرین کی فوجی امداد ضرور کررہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک جدید ہتھیار ٹریننگ اور مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں مگر رکنیت کا دروازہ ابھی بند ہے۔ یہ صورتحال یوکرین کے لیے شدید مایوس کن ہے۔ دنیا کے حالیہ جغرافیائی اور سیاسی منظرنامے کے تناظر میں یوکرین اور نیٹو کے تعلقات ایک اہم موڑ پر ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ نہ صرف یورپ کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال چکی ہے بلکہ نیٹو اتحاد کی حکمتِ عملی اور مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا چکی ہے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ یوکرین اور نیٹو کے تعلقات صرف دو ریاستوں یا ایک فوجی اتحاد کا معاملہ نہیں بلکہ یہ عالمی طاقتوں کی نئے صف بندی کا آغاز ہے۔
کہا جارہا ہے کہ صدر پوتن کے گزشتہ سال جون میں کیے گئے مطالبات میں کچھ نرمی دکھائی دی۔ اُس وقت وہ ڈونباس (ڈونیتسک اور لوہانسک) کے علاوہ جنوبی یوکرین کے خیرسون اور زاپوریزیا پر بھی مکمل قبضے کا مطالبہ کر رہے تھے، تاہم نئے تجویز کردہ منصوبے میں روس صرف ڈونباس کے مکمل خالی کرانے پر زور دے رہا ہے جبکہ زاپوریزیا اور خیرسون میں موجودہ محاذی لائن پر رکنے پر آمادہ ہے۔ روس ان کے بدلے خارکیف سومی اور دنیپروپیٹرووسک کے کچھ چھوٹے علاقوں سے دستبردار ہونے پر بھی تیار ہے۔ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ان شرائط کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونباس سے دستبردار ہونا یوکرین کی بقا کو خطرے میں ڈال دے گا اور نیٹو میں شمولیت ان کے آئین میں درج سٹریٹجک ہدف ہے۔ کریمیا کے ساتھ ساتھ یوکرین کے شہر زاپوریزیا اور خیرسون کے قریب تین چوتھائی حصے پر روس کا تسلط ہے۔ اس کے علاوہ خارکیف مائیکولائیو اور دنیپر اور پترووسک جیسے شہروں میں لگ بھگ 400مربع کلو میٹر یعنی 154مربع میل علاقہ روسی افواج کے قبضے میں ہے۔
یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ سفارتی لحاظ سے یوکرین جنگ پر روس کی فتح اور نیٹو اور یورپ کی شکست مانی جا رہی ہے۔ الاسکا میں ٹرمپ پوتن ملاقات نے یو کرین جنگ میں یوٹرن لے لیا ہے۔ درحقیقت یوکرین کے محاذِ جنگ سے ہارنا امریکا، یورپی یونین اور پورے مغرب کی مشترکہ شکست ہے۔ یہ مغربی تسلط کے زوال پر مہرِثبت ہے۔ صدر پوتن اور امریکی صدر کی ملاقات کے حوالے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر ٹرمپ روس کی مضبوط پوزیشن اور برتری کا اعلان کر چکے ہیں۔ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں یورپی اتحادیوں سے ملاقات میں واضح کر چکے ہیں کہ امریکا اپنے ٹروپس کو یوکرین نہیں بھیجے گا اور یہ بھی کہا کہ یوکرین کو نیٹو کا رکن نہیں بنایا جائے گا، البتہ یوکرین کو نیٹو جیسا اسلحہ اور ٹریننگ فراہم کی جائے گی لیکن اس پر نیٹو آرٹیکل پانچ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہ اعلان روس کو اس جنگ کا فاتح قرار دینے کا عندیہ ہے کیونکہ جنگ کا آغاز یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کے تنازعے پر ہوا تھا۔ روس نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ اس کے پڑوس میں کوئی ملک نیٹو کا حصہ نہیں بن سکتا اور اس اقدام کو روس کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ روس اور یوکرین کے صدور کی براہِ راست ملاقات کے حوالے سے ابتدائی مرحلہ طے پایا گیا ہے، اگلے مرحلے میں اس ملاقات میں امریکی صدر بھی شامل ہوگا اور جنگ بندی کے حوالے سے حتمی لائحہ عمل طے ہوگا۔
دوسری جانب یورپی رہنماؤں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ آیا روسی صدر واقعی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے یورپی رہنماؤں نے اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ جرمنی اور فرانس کا موقف ہے کہ ان شرائط سے روس زیادہ طاقتور اور یوکرین کمزور ہو گا۔ پولینڈ اور بالٹک ریاستوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر آج یوکرین کو چھوڑا گیا تو کل ہم بھی روس کے نشانے پر ہوں گے اور نیٹو کی حیثیت بہت کمزور ہو جائے گی جو اس کی فعالیت پر بھی اثرانداز ہوگی۔ یوکرین اور نیٹو کا مستقبل درج ذیل عوامل پر منحصر ہے:
٭جنگ کا اختتام کس شرائط پر ہوتا ہے؟ ٭روس کی اندرونی سیاسی صورتحال کس طرف جاتی ہے؟ ٭یورپی یونین اور امریکا کتنے عرصے تک یوکرین کی حمایت جاری رکھتے ہیں؟ ٭یہ کہ طاقت کا مرکز مغرب رہے گا یا نئی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں گی؟ ٭اگر نیٹو یوکرین کو اپنے ساتھ شامل کرتا ہے تو اسے روس کے ردِعمل کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آیا نیٹو واقعی یوکرین کو اپنی صف میں شامل کرنا چاہتا ہے یا محض اس کی حمایت کا تاثر دے کر روس پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے؟ ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جنگ بندی کی صورت میں کریمیا اور مشرقی ڈونباس کے علاقے یوکرین کو واپس نہیں ملیں گے جو روس کے قبضے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرنٹ لائن ہی مستقبل میں سرحد پار قرار پائے گی۔ یہ یوکرین یورپ اور نیٹو کی روس کے سامنے غیرمشروط جنگ بندی ہے جس کی سہولت کاری کے فرائض امریکی صدر انجام دے رہا ہے۔ یوکرین کے لیے ڈونباس چھوڑنا نہ سیاسی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی سٹریٹجک اعتبار سے۔ اس لیے اصل امتحان یہ ہے کہ آیا فریقین ورکنگ لیول پر کوئی عملی معاہدہ طے کر پاتے ہیں یا نہیں۔ روس میدانِ جنگ میں اپنی برتری قائم رکھے ہوئے ہے۔ وہ جنگ اور مذاکرات دونوں محاذوں پر ہی ڈٹا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر یہ صورتحال جنگ بندی کا معاملہ نہیں بلکہ نئے عالمی توازن کی جانب پیش قدمی ہے۔ عالمی منظرنامے میں یہ جنگ محض دو ملکوں کے درمیان نہیں رہی۔ یہ ایک بڑی طاقت (روس) اور ایک عالمی اتحاد (نیٹو) کے درمیان بالواسطہ تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اگر ٹرمپ کا فارمولا قبول ہوگیا تو روس کی تاریخی فتح اور نیٹو کو شکست ہوگی۔