مسجد کا انہدام

10اگست کو اسلام آباد میں مری روڈ پر جامع مسجد مدنی کو راتوں رات سی ڈی اے کی انتظامیہ نے منہدم کیا اور زمین کو ہموار کر کے درخت لگا دیے، جیسے یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اس پر مذہبی لوگ سراپا احتجاج ہیں اور اسی جگہ دوبارہ مسجد بنانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ برطانوی استعمار کے دور میں راتوں رات مسجد بننے کی بابت تو علامہ اقبال نے کہا تھا:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

لیکن حکومت کا رات کی تاریکی میں مسجد کو منہدم کرکے میدان کو ہموار کرنے کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے۔ انتظامیہ کا استدلال یہ ہے کہ یہ مسجد غیرقانونی ہے، مگر انتظامیہ پر یہ حقیقت ایک روایت کے مطابق 93سال اور دوسری روایت کے مطابق 50سال بعد آشکار ہوئی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اسلام آباد میں ایسی غیرقانونی مساجد تقریباً پچاس ہیں۔ سوال یہ ہے:مقامی حکومت کے اداروں سی ڈی اے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے وغیرہ میں لینڈ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ اور محکمۂ انسدادِ تجاوزات بھی ہوتا ہے، تو جب تجاوز ہو رہا ہوتا ہے، اُس وقت یہ محکمے کہاں سوئے ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر یہ زمین حکومت کی ملکیت ہوتی ہے اور آبادیوں میں مساجد، اسکول، کالج، اسپتال، قبرستان اور کھیل کے میدانوں کے لیے جگہیں مختص کرنا متعلقہ اداروں کے محکمۂ منصوبہ بندی کی ذمے داری ہوتی ہے۔ مسجدیں راتوں رات نہیں بنتیں، بلکہ مہینوں اور بعض صورتوں میں برسوں میں تکمیل پاتی ہیں اور متعلقہ اداروں کی خاموشی دراصل ”رضائے سکوتی” ہوتی ہے۔ ایک بار مسجد قائم ہونے کے بعد اس کا انہدام شعائرِ اسلام کی توہین اور فساد کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بات ہم مسلکی وابستگی سے قطع نظر اصولوں کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی اصول کی بنیاد پر ہم نے جسٹس گلزار احمد کی جانب سے مدینہ مسجد طارق روڈ کراچی کو منہدم کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی کہ اگر ایک مرتبہ اس روایت کو قبول کرلیا گیا، تو پھر اسے آئندہ اقدامات کے لیے مثال بنالیا جائے گا۔ اسی اصول پر ہم نے مدرسے کی تالہ بندی کی بھی مخالفت کی ہے، اس حوالے سے ہمارا کالم 2اگست کو شائع ہو چکا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی پر عورت پر دست درازی کا الزام عائد ہوا ہے، اسے پولس نے گرفتار بھی کیا ہے، کیا اس کے سبب پاکستان کرکٹ بورڈ کو سیل کر دیا جائے گا۔ افراد کی سزا اداروں کو نہیں دی جا سکتی، اس طرح تو سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی سیل کرنا پڑے گا، کیونکہ آئے دن وہاں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

اصولی طور پر مساجد، تعلیمی اداروں، اسپتالوں، قبرستان، کھیل کے میدانوں اور تمام رفاہی مقاصد کے لیے جگہیں مختص کرنا، ہر نئے سیکٹر، رہائشی کالونیوں، ٹائون شپس اور آبادیوں کے لیے لازمی ہونا چاہیے، خواہ یہ آبادیاں حکومتی انتظامات کے تحت قائم ہوں یا پرائیویٹ ادارے بنائیں، نیز مساجد کی الاٹمنٹ میں تمام مسالک کے ساتھ انصاف برتا جائے۔ ڈی ایچ اے، آرمی ہائوسنگ اسکیموں، کنٹوٹمنٹ بورڈز حتیٰ کہ اسلام آباد میں بھی انصاف نہیں برتا گیا۔ سول ملٹری بیوروکریسی یا بااختیار اداروں میں اعلیٰ مناصب پر فائز عہدیداروں نے اپنی ترجیحات پر یا سیاسی وخارجی دبائو کے تحت فیصلے کیے اور اس میں سب سے زیادہ حق تلفی اہلسنّت وجماعت کی ہوئی ہے۔ مسلک کی بنیاد پر آبادی کا تناسب ہر ایک کو معلوم ہے اور ناانصافی کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ غیرمسلموں کو راضی کرنے اور اپنے آپ کو لبرل ثابت کرنے کے لیے تو ہماری حکومتیں تمام حدود سے تجاوز کرلیتی ہیں تاکہ مغربی دنیا انھیں آزاد خیال اور لبرل تسلیم کرے، لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے عالمی سطح پر اُن کے حصے میں ملامت ہی آتی ہے۔ پس گزارش ہے: مسلمانوں کے مسالک ومکاتبِ فکر کے درمیان بھی حقوق کے تعیّن میں توازن اور انصاف برتا جائے، حکمران فوجی ہوں یا سول یا فیصلہ کرنے والا منصِب دار بیوروکریٹ یا عدالت ہو، سب کو انصاف سے کام لینا چاہیے۔

مسجد مسلمانوں کی بنیادی دینی ضرورت ہے، لوگوں کو پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد جانا پڑتا ہے، اس میں عشاء اور فجر کی نمازیں بھی شامل ہیں، پس مسجد کے لیے کم از کم فاصلہ درکار ہے تاکہ معمر، ضعیف اور کمزور نمازیوں کے لیے باجماعت نماز میں شرکت آسان ہو۔ یہ اختیاری امر نہیںہے کہ کوئی طنزاً کہے: نہیں جا سکتا تو گھر پر پڑھ لے، باجماعت نماز واجب ہے اور یہ اسلام کا شعار ہے۔ حدیثِ پاک میں اسلام کے ارکانِ خمسہ میں توحید ورسالت کی شہادت کے بعد اقامتِ صلوٰة کو دوسرا رکن قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ اگر کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے، سجدہ نہیں کر سکتا تو اشارے سے پڑھے، بہر صورت نماز کی ادائی لازم ہے۔

حکومتوں کی غیر متوازن اور غیر منصفانہ پالیسیاں ہی ہوتی ہیں جو دینی شعائر کے تحفظ کے لیے مسلکی امتیاز کے بغیر تمام مکاتبِ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ترغیب دیتی ہیں اور موقع فراہم کرتی ہیں۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اسی ناگزیر ضرورت کے تحت قائم ہوا تاکہ پاکستان کا دینی تشخص اور دینی مدارس وجامعات آزادانہ ماحول میں کام کرتے رہیں۔ مساجد اور دینی مدارس وجامعات حکومت کے لیے کوئی مسائل پیدا کرتے ہیں اور نہ حکومت پر مالی بار کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب ادارے عوام کے تعاون سے چلتے ہیں اور ان کو عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی طرح عالَمِ عرب میں دینی مدارس وجامعات اور مساجد کے منبر ومحراب اور مَسندِ تدریس آزاد ہوتے تومظلوم فلسطینیوں کے حق میں ہر جگہ سے توانا آواز بلند ہوتی اور حکومتیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام کرنے پر مجبور ہوتیں، لیکن سب سے زیادہ بے حسی عالَمِ عرب میں نظر آئی، جبکہ غیر مسلم ممالک میں بھی فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

ہم بھی چاہتے ہیں مساجد کے پلیٹ فارم کو ملی وحدت اور اسلام کے مثبت پیغام کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تشدد اور نفرت انگیزی کا سدِّباب ہو، اپنے مسلک کے ابلاغ کے لیے دلیل واستدلال کا شعار اپنایا جائے، مسلمانوں کی غالب اکثریت کے مسلّمات کو عام اجتماعات میں ہدف نہ بنایا جائے۔ قرآن کا شِعارِ دعوت بھی یہی ہے: ”لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے بلائو اور اُن سے اَحسن طریقے سے بحث کرو، (النحل: 125)”۔ ظاہر ہے: جب آپ دوسروں پر طنز کریں گے، ان کی تحقیر کریں گے، اُن کے مسلّمات کو عَلانیہ ردّ کریں گے، تو کوئی بھی آپ کی بات سننے کا روادار نہیں ہوگا۔ مسالک ومکاتبِ فکر قُرونِ اُولیٰ سے موجود رہے ہیں اور ان کے عقائد بھی مذہبی کتب میں موجود ہیں، لیکن ہمیشہ ان مباحث کو کلاس روم تک محدود رکھا گیا ہے، اب بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد جہاں سیاست میں مخالفین کی تذلیل و اہانت اور دشنام کا رواج پڑا ہے، وہاں بعض مذہبی خطباء اور ذاکرین نے بھی اس شِعار کو اپنا لیا ہے تاکہ اپنے روایتی سامعین کو اپنا گرویدہ بنائیں، علامہ جواد نقوی کے بقول اپنی مارکیٹ بنائیں، خواہ اس کا نقصان نفع سے بدرجہا زائد ہو۔ اس معاملے میں دنیوی مفاد پر اُخروی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔

اہلِ تشیّع کے عالم ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے: ”رویانی کی ”عیون المحاسن” میں ہے: حسنین کریمین کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا جو صحیح طریقے سے وضو نہیں کر رہا تھا، یہ دونوں (حکمتِ تبلیغ کے تحت) آپس میں جھگڑنے لگے کہ ہم میں سے وضو کون بہتر طریقے سے کرتا ہے، انھوں نے اُس بوڑھے شخص سے کہا: جناب! آپ ہم دونوں میں ثالث بن جائیں کہ ہم میں سے وضو کون صحیح طریقے سے کرتا ہے، اس نے دیکھ کرکہا: آپ دونوں بہت اچھے طریقے سے وضو کرتے ہیں، یہ جاہل بوڑھا ہی ہے جو اچھے طریقے سے وضو نہیں کر رہاتھا، اب آپ دونوں سے اسے اچھے طریقے سے وضو کرنا سکھا دیا ہے، (بحار الانوار، ج: 43، ص: 319)”۔ پس تبلیغ کا ایک اَحسن طریقہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کے شخصی احترام کو قائم رکھتے ہوئے اُنھیں مسئلہ بتایا جائے۔