آئیے، یادداشتوں کو مٹانے کی کوشش ناکام بنائیں

چند دن قبل خبر آئی کہ بھارت میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے مرکز کے زیراہتمام علاقے میں 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی مقبوضہ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جاری کیے گئے ایک حکم نامے کے ذریعے لگائی گئی۔

مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبریں بہت تکلیف دہ اور دردناک ہوتی ہیں اور کشمیری عوام پر توڑے گئے ظلم ایسے ہیں کہ انہیں سادہ الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس پس منظر میں 25کتابوں پر پابندی کی خبر پر زیادہ فوکس نہیں کیا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی جان کی حرمت اور تقدس نہیں تو سفاک انتظامیہ کے لیے کتابوں کی کیا اہمیت ہوگی؟ 3، 4دن قبل ایک کشمیری دوست سے واٹس ایپ گروپ میں چیٹ ہوئی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے۔ یہ دراصل گہرے منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ خوفناک ایجنڈے پر عمل درآمد کی کوشش۔ اپنے آج کے کالم میں اسی پر بات کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت اور بی جے پی دانشور اصل میں یہ چاہ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی انتہائی گمبھیر اور سنگین صورتحال کو نہ صرف نارملائز کر دیا جائے بلکہ نئی نسل کو اس سب کچھ سے بے خبر رکھا جائے۔ ان کی یادداشتوں کو کھرچ کر مٹا دیا جائے۔ اسی وجہ سے وہاں ان کتابوں پر پابندی لگائی گئی۔ اس فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی بہت مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ۔ انڈیا، پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ ارندھتی رائے کی ‘آزادی’ اور لندن کے اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔ معروف بھارتی ویب سائٹ وائر اردو کے مطابق اس فہرست میں شامل دیگر اہم کتابوں میں آسٹریلوی ماہر تعلیم کرسٹوفر سنیڈن کی ‘انڈیپنڈنٹ کشمیر’، صحافی اور ایڈیٹر انورادھا بھسین کی ‘اے ڈسمینٹل اسٹیٹ دی اَن ٹولڈ اسٹوری آف کشمیرآفٹرآرٹیکل 370 ‘، سیما قاضی کی لکھی ہوئی ‘بٹوین ڈیموکریسی اینڈ نیشنـ جینڈر اینڈ ملٹرائزیشن ان کشمیر’، امریکی یونیورسٹی پنسلوانیا کی پروفیسر حفصہ کنجوال کی ‘کولونائزنگ کشمیر’ اور ڈیوڈ دیوداس کی لکھی ہوئی ‘ان سرچ آف اے فیوچر دی اسٹوری آف کشمیر’ سمیت ایسی کئی کتابیں شامل ہیں، جنہوں نے کشمیر کی کہانیاں دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔

معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور پروفیسر سوگاتا بوس کی کتاب ‘کشمیر اینڈ دی فیوچر آف ساؤتھ ایشیا’، مولانا مودودی کی مشہور کتاب ‘الجہاد فی الاسلام’ اور اخوان المسلمین کے بانی سید حسن البنا شہید کی کتاب ‘مجاہد کی اذان’ بھی ان بین ہونے والی کتب میں شامل ہے۔ وائر اردو ہی میں سید افتخار گیلانی کے کالم سے یہ دلچسپ بات پتہ چلی کہ بھارت میں مرکزی سطح پر جن 50کے قریب کتابوں پر پابندی ہے، ان میں مشہور پاکستانی ناول نگار نسیم حجازی کا ناول ‘خاک و خون’ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ خاک و خون پارٹیشن کے حوالے سے ہے اور یہ کہ کس طرح ہندوستان کی مسلم آبادی پاکستان بنانے کے لیے یکسو اور پُرعزم ہوئی۔

وائر کی رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد پہلی بار 1950میں 3کتابوں پر پابندی لگائی گئی، ان میں حمید انور کی ‘پاکستان پس منظر’، آغا بابر کی ‘سیز فائر’ اور نسیم حجازی کا ناول ‘خاک و خون’ تھا۔ اس کے 2 سال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول ‘معرکہ سومناتھ’ پر پابندی لگائی گئی۔ اسٹینلے وولپرٹ کی نائن آوز ٹو راما پر 1962میں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈ رسل کی ان آرمڈ وکٹری ممنوع قرار دی گئی۔ وی ایس نائپال کی این ایریا آف ڈارکنیس، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی کی ‘دی رامائن: اے ٹرو ریڈنگ’ بھی اس لسٹ میں ہے۔ 1983میں امریکی تفتیشی صحافی سیمیور ہرش کی کتاب ‘1989میں زوہیر کشمیری’ اور برائن میک انڈریو کی کتاب ‘سافٹ ٹارگٹ’ پر پابندی لگائی گئی، تاہم ایک ساتھ 25معروف کتابوں پر پابندی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ہندوستان میں اس پر شدید ردعمل ہوا ہے۔ بہت سے دانشوروں، ادیبوں، سیاسی رہنمائوں نے اس پر احتجاج کیا ہے، مضامین اور سوشل میڈیا پوسٹوں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم بی جے پی حکومت اور ان کی سفاک انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

کشمیری صحافیوں، دانشوروں کا خیال ہے کہ اصل مقصد طالب علموں اور ریسرچ اسکالرز کو اندھا بنانے کی کوشش ہے کیونکہ کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر ناممکن ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً 668کتابیں ضبط کیں۔ 2سال قبل کشمیر کی جامعات نے مرکزی حکومت کے دباؤ پر علامہ اقبال، آغا شاہد علی اور فیض احمد فیض جیسے مشہور شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔ سید افتخار گیلانی کی رپورٹ کے مطابق موجودہ پابندیوں کو ایک بڑے بیانیے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔ یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے، جیسے ہندوستان کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد 2014میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی 2019میں نصیب ہوئی، لہٰذا اس سے قبل کے دور کو دورِ غلامی یا تاریک دور کے طور پر ہی یاد کیا جا سکتا ہے۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کشمیریوں کی نئی نسل کی یادداشتوں کو مٹانے کی ان کوششوں کا ایک حصہ عظیم کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کے کردار کو تاریخ کے صفحات سے غائب کرنے سے متعلق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی کی دیوقامت شخصیت کے بارے میں ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں کچھ نہ جانیں، اخبارات اور میڈیا میں بھی کچھ نہ چھپے۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد انڈین پولیس ان کے گھر سے گیلانی صاحب کی کتب، نوٹس وغیرہ اور ان کی پرسنل لائبریری بھی لے گئی۔ کسی شخص کی ذاتی کتب اور لائبریری کو آخر کون اور کیوں لے جائے گا؟ بھارتی حکومت نے مگر ایسا گھٹیا اور کم ظرفی کا کام کیا ہے۔ گیلانی صاحب 40سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، مگر اب یہ صفحہ ہستی سے مٹتی نظر آرہی ہیں۔ ان کی کتابیں مقبوضہ کشمیر میں دستیاب نہیں اور نہ ہی کسی پبلشر کو انہیں دوبارہ سے چھاپنے کی اجازت ہے۔ لاہور میں مختلف مشاہیر کے حوالے سے شہر کے انڈرپاسز کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں تحریک پاکستان کے قائدین کے علاوہ ممتاز بلوچ سردار چاکر خان رند اور 16ویں صدی کی ممتاز کشمیری شاعرہ حبہ بیگم بھی شامل ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ ایک انڈر پاس سید علی گیلانی مرحوم سے منسوب کیا جائے۔ مسجد وزیر خان میں بھی ایک سید علی گیلانی کارنر بنایا جاسکتا ہے، ان کی یادگاری تختی لگا دی جائے۔ وہاں بہت سے غیر ملکی بھی وزٹ کرتے رہتے ہیں، اچھا ہے کہ اس قرینے سے کشمیر محاذ بھی نمایاں ہوتا رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف خود کشمیری ہیں، ان کی توجہ اگر اس جانب مبذول کرائی جائے تو یقینی طور پر لاہور میں 2، 3جگہوں پر یہ سب فوری ہو سکے گا۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک سید علی گیلانی فاؤنڈیشن بنائی جائے جو گیلانی صاحب کا لکھا تمام کام محفوظ کرے۔ ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی میں ان کی کتاب، پمفلٹس اور مضامین سنبھال لیے جائیں، انہیں مختلف انٹرنیٹ آرکائیوز ویب سائٹس پر ڈالا جائے تاکہ انڈیا میں موجود مسلمان بھی رسائی حاصل کرسکیں۔ ویسے اگر ممکن ہو تو گیلانی صاحب کے کام کو دیوناگری اسکرپٹ میں بھی پیش کیا جائے تاکہ اردو نہ جاننے والے بھارتی بھی مستفید ہو سکیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی ٹولز کی مدد سے یہ باآسانی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ پہلے سید علی گیلانی فاؤنڈیشن بنائی جائے۔

یکم ستمبر کو علی گیلانی صاحب کی برسی ہے۔ اس موقع پر اگر یہ بڑا قدم اٹھا لیا جائے تو یہ ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بہت اچھا اور مثبت پیغام ہوگا۔ آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی اپنے طور پر ایسا کرنا چاہیے، تاہم ہم پاکستانیوں کو اپنے حصے کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ سید علی گیلانی مجسم پاکستانی تھے، اپنی آخری سانسوں تک وہ پاکستان کی مالا جپتے رہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم انہیں یاد رکھیں اور ان کی یادوں کو اپنی اگلی نسلوں تک پہنچائیں بلکہ ان کی یادداشتوں کو کھرچنے، مٹانے کی جو کوششیں بھارتی حکومت کر رہی ہے، اسے ناکام بنایا جائے۔