پاکستان میں سیلاب، وجوہات اور حل

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریاؤں کا جال، برف پوش پہاڑ اور زرخیز زمینیں اس خطے کو ایک زرعی طاقت بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ یہی وسائل جب ہمارے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو تباہی اور بربادی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کوئی نئی بات نہیں، یہ مسئلہ قیام پاکستان کے بعد سے بار بار ہمارے سامنے آیا ہے اور ہر چند سال بعد لاکھوں انسانوں کو متاثر کرکے اربوں روپے کا نقصان کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر سیلاب ہماری زمین پر اتنی بار کیوں آتا ہے اور ہم اسے روکنے میں کیوں ناکام رہے ہیں؟

اس کی بنیادی وجوہات میں بے ہنگم بارشیں، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا عمل، جنگلات کی کٹائی اور دریاؤں کے کناروں پر غیر منصوبہ بند آبادیاں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے آج تک آبی ذخائر کی تعمیر، ڈیموں کی بروقت دیکھ بھال اور نکاسیٔ آب کے مؤثر نظام پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کا پانی زمین کو سیراب کرنے کے بجائے انسانی بستیوں کو اجاڑ دیتا ہے۔ سیلاب سے نہ صرف مکانات اور سڑکیں تباہ ہوتی ہیں بلکہ کھڑی فصلیں بھی برباد ہو کر کسانوں کو قرض اور غربت کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں۔ اگر ہم نے ابھی سے عملی اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ آنے والے برسوں میں مزید سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔

سیلاب کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ غیر معمولی بارشیں ہیں جو مون سون کے موسم میں اوسط سے کئی گنا زیادہ برس جاتی ہیں۔ یہ بارشیں اچانک ندی نالوں اور دریاؤں کو لبریز کر دیتی ہیں اور پانی قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان گلیشیئرز کا پگھلا ہوا پانی اچانک نشیبی علاقوں میں بہہ آتا ہے اور بستیاں اجڑ جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑے ڈیموں اور ذخائر کی کمی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 1960کی دہائی میں منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے تھے لیکن اس کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ ہو سکا۔ اگر ان پانچ دہائیوں میں مزید ڈیم تعمیر ہوتے تو آج نہ صرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا بلکہ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور بجلی پیدا کرنے میں بھی یہ پانی کارآمد ثابت ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہر سال اربوں کیوبک میٹر پانی سمندر میں پھینک دیتا ہے جو اگر ڈیموں میں محفوظ کیا جائے تو ملک کی توانائی اور زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی نے بھی سیلاب کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ درخت بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے اور بہاؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ پاکستان میں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بارش کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے تیزی سے نشیبی علاقوں میں آتا ہے اور بستیاں ڈوب جاتی ہیں۔ دوسری طرف دریاؤں کے کنارے بنائے گئے پرانے اور کمزور پشتے ذرا سا دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور ریلے دیہاتوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ برساتی نالوں اور دریاؤں کے قدرتی راستوں پر ناجائز تعمیرات بھی اس تباہی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

سیلاب کے نقصانات صرف انسانی جانوں کے ضیاع تک محدود نہیں رہتے۔ ہر سال لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں جس سے خوراک کی کمی پیدا ہوتی ہے اور ملک کی معیشت پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔ سڑکیں، پل، اسکول اور اسپتال پانی میں بہہ جاتے ہیں، جنہیں دوبارہ تعمیر کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ متاثرہ خاندان اپنی زندگی کے سب خواب کھو بیٹھتے ہیں اور کئی نسلیں قرض اور غربت کی دلدل میں دھنس جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیماریوں اور وباؤں کا پھیلاؤ ایک اور بڑا خطرہ ہے۔ گندے پانی اور آلودگی کی وجہ سے ہیضہ، ملیریا اور ڈائریا جیسی بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں جو مزید انسانی جانیں نگلتی ہیں۔

سیلاب کے حل کے لیے سب سے پہلا قدم یہی ہے کہ پاکستان کو نئے ڈیم بنانے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔ یہ صرف سیلاب کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ پانی ذخیرہ کرنے، بجلی پیدا کرنے اور زرعی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستان ایک بڑا ڈیم تعمیر کرے تو وہ نہ صرف اربوں کیوبک میٹر پانی محفوظ کر سکتا ہے بلکہ ہزاروں میگاواٹ بجلی بھی حاصل کر سکتا ہے، جو توانائی کے بحران کو کم کرے گی۔ اس کے علاوہ ڈیم کھیتوں تک پانی پہنچا کر زراعت کو فروغ دیں گے اور کسان کی معیشت مستحکم ہوگی۔ اگر ہم اس وقت سرمایہ لگا کر ڈیم بنا لیں تو مستقبل میں آنے والے سیلابوں کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے کنارے مضبوط پشتے اور حفاظتی بند تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ پانی کے دباؤ کو برداشت کیا جا سکے۔ شہروں میں نکاسی آب کے جدید نظام متعارف کرائے جائیں تاکہ بارش کے وقت سڑکیں دریا نہ بن جائیں۔ برساتی نالوں پر تجاوزات کا خاتمہ کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ قدرتی راستے بند کیے بغیر پانی کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں۔ بڑے پیمانے پر شجر کاری مہم بھی ایک ضروری قدم ہے، کیونکہ درخت ہی وہ قدرتی رکاوٹ ہیں جو پانی کو زمین میں جذب کرتے اور بہاؤ کو کم کرتے ہیں۔

سیلاب سے نمٹنے کے لیے صرف انفراسٹرکچر کافی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضروری ہے۔ بروقت وارننگ سسٹم اور موسم کی درست پیشگوئی ہزاروں جانیں بچا سکتی ہے۔ اگر لوگوں کو وقت پر اطلاع مل جائے تو وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریسکیو اور ریلیف اداروں کو جدید آلات، کشتیاں اور تربیت فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ ہنگامی صورتحال میں فوری مدد فراہم کر سکیں۔ پاکستان میں سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کا بھی نتیجہ ہے۔ برساتی نالوں پر قبضے، جنگلات کی کٹائی، نکاسی آب کے مسائل اور ڈیموں کی کمی وہ بنیادی عوامل ہیں جنہوں نے ہر بار پانی کو تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی دانشمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فیصلے نہ کیے تو آنے والی نسلیں بھی انہی مسائل سے دوچار رہیں گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام سب مل کر اپنی ذمہ داری ادا کریں اور اس رحمت کو زحمت بننے سے روکنے کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کریں۔