پی ٹی آئی کے اہم راہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن پر قوم سے معافی مانگ لی ہے۔ یہ وہی اسد قیصر ہیں جنہوں نے 9 مئی کے حوالے سے جوشِ جذبات میں آ کر ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ”معافی تو ہم کبھی اپنے باپ سے بھی نہیں مانگتے”۔ اب انہوں نے جب اپنے ہی قول کی مخالفت کردی ہے تو اس کے پیچھے ایک خاص مقصد واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ وہ موجودہ حکومت کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ آئندہ سال جب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت پوری ہو گی تو موجودہ حکومت وہی ”غلطی” نہ دہرائے جو پی ٹی آئی نے کی تھی۔ اسد قیصر شاید یہ بھول گئے کہ 26ویں ترمیم کے بعد فیلڈ مارشل کی مدت ملازمت پانچ سال ہو گئی ہے اور وہ بے وقت کی راگنی الاپ رہے ہیں۔
ہم اسد قیصر کی معافی کو ضمیر کی آواز ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ ضمیر کے قیدی ہوتے تو ادھورا سچ بولنے کی بجائے پورا سچ بولتے اور پریس کانفرنس میں برملا اعتراف کرتے کہ 2018ء میں ان کی پارٹی کو دھاندلی کے ذریعے آر ٹی ایس بٹھا کرجتوایا گیا اور جبر و دھونس سے سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کروا کر اقتدار میں لایا گیا تھا۔ وہ دھاندلی زدہ حکومت لینے پر بھی قوم سے معافی مانگتے تو ان کی بات میں وزن ہوتا۔ ایکسٹنشن پر معافی مانگنے والے اسد قیصر کے قائد عمران خان نے تو حکومت بچانے میں مدد کرنے کی صورت میں جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بننے کی پیش کش کر دی تھی۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی پی ڈی ایم حکومت گرانے اور خود کو برسرِ اقتدار لانے میں مدد کے حصول کے لیے عمران خان نے ایوانِ صدر میں دو مرتبہ جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
کس کو اس بات کا نہیں پتا کہ عمران خان 2018ء میں ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے۔ لاکھ کوشش اور راتوں رات مخالف امیدواران کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے علاوہ بعض مخالف امیدواران کے عین وقت پر ٹکٹ واپس دلوانے کے باوجود جب حکومت سازی کے لیے ایم این ایز مطلوبہ تعداد میں جیت نہ سکے تو جناب جہانگیر ترین کے جہاز نے اپنی کرشماتی اڑان بھری تھی اور عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کر دیا گیا۔اپنے دورِ حکومت میں عمران خان پاک فوج کے گُن گاتے رہے۔ اس کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا فخریہ اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر فوج کے حق میں مہم بھی چلوائی اور تین سال سات ماہ اکیس دن تک اسی فوج کے بل بوتے پر حکومت بھی کی۔ انہوں نے اس بات کا بھی برملا اعتراف کیا کہ ایوان میں قانون سازی کرتے وقت فوج ہی ان کی حکومت کو ممبران کی تعداد پوری کر کے دیتی تھی۔ اس بات سے بھی سبھی آگاہ ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے معاملات ایک حاضر سروس کرنل چلاتے رہے ہیں۔
یہ عمران خان کی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنے لانے والوں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی چھتری سر سے اتری تو انہیں پتا چلا کہ دھوپ، بارش اور اولوں سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے طور پر تو کوئی بندوبست کیا ہی نہیں تھا۔ اپوزیشن کا تعاون کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ ہر مرتبہ انہوں نے حقارت سے جھٹک دیا تھا۔ اپوزیشن کو موقع مل گیا اور آئینی طریقے سے تحریکِ عدمِ اعتماد کے ذریعے انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ اقتدار سے محرومی کو عمران خان نے جی کا روگ بنا لیا اور اسی فرسٹریشن میں 9مئی کر ڈالا۔ ان سے بار بار کہا گیا کہ وہ سیاسی قوتوں سے ڈائیلاگ کریں مگر انہوں نے ہر مرتبہ اس سے انکار کیا۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ وہ جانتے ہیں مذاکرات کی میز پر سیاست دانوں کا مقابلہ نہ کر پائیں گے۔ اپنے مخالفین سے ہار جائیں گے۔ وہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ مذاکرات صرف فوج سے کیے جائیں گے۔ اسی ضد کی وجہ سے 9مئی کے بعد اپنی پارٹی سے سانحہ 26نومبر بھی کروا بیٹھے۔
ان کے ورکرز اور مقلدین کو فخر ہے کہ ان کا لیڈر ڈیل نہیں کر رہا جبکہ 24نومبر کے احتجاج کے مطالبات اس دعوے کی سراسر نفی کرتے تھے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں وہ اپنے تین مطالبات منوانا چاہتے تھے۔ پہلا مطالبہ عمران خان اور سانحہ 9مئی کے گرفتار شدگان کی رہائی۔ دوسرا مطالبہ (بقول ان کے) اپنے چھینے گئے مینڈیٹ کی واپسی اور تیسرا مطالبہ نئے انتخابات۔ آپ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کوئی انقلابی لیڈر اپنی رہائی کا مطالبہ کرتا نظر نہیں آئے گا۔ یہی تو ڈیل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے بظاہر اختلاف کرنے والے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں۔ دراصل یہ بھی ڈیل کی ہی خواہش اور کوشش ہے۔ اسد قیصر کو چاہیے تھا کہ پورا سچ بولتے اور قوم سے وعدہ کرتے کہ ان کی پارٹی آئندہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے جدوجہد کرے گی۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے کی جدوجہد کرے گی۔ ان کا آدھا سچ جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔