حضرت یعقوب علیہ السلام کے کل بارہ بیٹے تھے، ان میں سے دو (حضرت یوسف اور بنیامین) کی ماں ایک تھی جبکہ باقی سب بیٹے ان کی دوسری اہلیہ سے تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا تو آپ فوراً بھانپ گئے کہ اس کی تعبیر یوسف کا روشن مستقبل ہے۔ اس لیے ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں دوسرے سوتیلے بھائی حسد کی وجہ سے شیطان کے بہکائے میں آکر یوسف کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر بیٹھیں۔
سو فرمایا:
”بیٹا! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش تیار کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔”( یوسف)
اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی کے سفر میں روانہ ہونے سے پہلے ہر قسم کے امکانی خطرات کا پیشگی سدباب ضروری ہے۔اس میں رازداری سب سے اہم ضرورت ہے بے شک آپ بڑے خواب دیکھیں،ان کی تعبیر میں بھی پورے عزم کے ساتھ لگ جائیں مگر اپنے خواب سب کو مت بتائیں، کیونکہ بعض کامیابیاں صرف خاموشی میں پکتی ہیں۔
شاید ہی ہم میں سے کوئی ایسا ہو جس نے اپنے کسی بزرگ سے یہ بات نہ سنی ہو کہ: ”اپنے ارادے کسی کو مت بتاؤ!”
بظاہر یہ معمولی سا جملہ ہے، لیکن اس کے پیچھے تجربات کی ایک پوری دنیا چھپی ہوتی ہے۔ زندگی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ کچھ خواب اور ارادے ایسے ہوتے ہیں جو صرف تبھی حقیقت بنتے ہیں جب انہیں خاموشی سے سینچا جائے۔ خاموشی، صبر، اور تنہائی میں پلنے والے خواب ہی مضبوط جڑیں پکڑتے ہیں، جبکہ قبل از وقت اعلان اکثر ان کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی خیال یا منصوبے سے ہمیں اتنی خوشی ملتی ہے کہ ہم اسے فوراً دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ نیت بھی کوئی بری نہیں ہوتی، بلکہ محبت، حوصلہ افزائی، یا اندرونی خوشی کے اظہار کی ہوتی ہے۔ لیکن یہی نیک نیتی بعض اوقات نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ کیونکہ کچھ لوگوں کی نظروں، تبصروں، یا غیر محسوس جذبات کا منفی اثر ہمارے حوصلے پر پڑ جاتا ہے اور یوں ابھی سفر شروع بھی نہیں ہوا ہوتا کہ جوش ماند پڑ جاتا ہے اور خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ جس طرح حوصلہ افزائی کا کوئی ایک جملہ کبھی انسان کے لیے کامیابی کی سات منزلیں عبور کرنے کا باعث بنتا ہے،اسی طرح بعض اوقات حوصلہ شکنی کے رویے انسان کو سامنے کی منزل سے بھی دور کردیتے ہیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ: ”اپنے راز کو اس وقت تک راز رکھو، جب تک وہ مکمل نہ ہو جائے۔”
کامیابی ایک طویل جدوجہد کا نام ہے، جو خیال سے شروع ہوتا ہے، منصوبہ بندی سے آگے بڑھتا ہے، اور عمل کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ لیکن جب اس خیال کو وقت سے پہلے لوگوں کی نظروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو اکثر وہ پکنے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے۔ نہ ہر شخص حسد کرتا ہے، نہ ہر نگاہ بری ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیں ایسا سوچنا چاہیے لیکن پھر بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ کچھ چیزوں کو مجالس تک پہنچانے کی بجائے صرف دعا کی جگہ روک دی جائیں۔
ہو سکتا ہے کہ جسے ہم اپنا رازدار سمجھتے ہیں، وہی لاشعوری طور پر دوسروں سے ہماری بات بانٹ دے۔ ایک مذاق، ایک سرسری ذکر، اور پھر بات پھیلتی چلی جائے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا ہمارے سامنے ایک نئی آزمائش ہے۔ یہاں لوگ نہ صرف اپنے خواب، منصوبے اور ارادے فوراً دنیا کے سامنے رکھ دیتے ہیں، بلکہ اپنی روزمرہ زندگی کی ہر تفصیل، اپنی نقل و حرکت، لوکیشن، بچوں کی تصاویر، گھریلو تقریبات، اور یہاں تک کہ اپنے جذباتی لمحے بھی نشر کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب بعض لوگ والے اب اپنی نجی زندگی یا اداروں کے عام روٹین کے معاملات بھی سوشل میڈیا پر نشر کرنے کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔بعض مدارس کے ہمارے دوست طلبہ کے لیے امتحانی پرچہ بناکر اسے بھی فیس بک پر شائع کرنا کوئی اہم کام سمجھتے ہیں۔کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کی تصویر بھی اگر عوام الناس کو نہ دکھائی جائے تو شاید کھانا ہضم نہیں ہوگا۔
ایسا کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ کیا ہر بات سب کو بتانا ضروری ہے؟
ایک عام سی لوکیشن شیئر کرنا بھی بعض اوقات سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ آپ کے دشمن، حسد کرنے والے، یا سادہ چور تک یہ جان سکتے ہیں کہ آپ اس وقت کہاں ہیں، یا آپ کا گھر کب خالی ہے۔
ایک حدیث میں بھی اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے کہ: ”اپنے کاموں کو رازداری سے انجام دو، کیونکہ ہر نعمت پر حسد کیا جاتا ہے۔” (الطبرانی)
یہ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ جب تک منزل نہ آئے، راستے کا شور نہ مچاؤ۔ آگ کا شعلہ ابھی بلند ہونے ہی لگا ہو تو ہوا کو دعوت مت دو۔
خاموشی کوئی کمزوری ہے اور نہ انفرادیت پسندی، بلکہ یہ ایک تدبیر ہے۔
حقیقی تحریک باہر سے نہیں، اندر سے ملتی ہے۔
بہت سے لوگ ہماری کامیابی پر خوش ضرور ہوتے ہیں، لیکن سب نہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ آپ کے خواب کا سب سے بڑا محافظ آپ کی اپنی خاموشی ہے۔ یہ دل کے اندر کی آگ کو بجھاتی نہیں، بلکہ سنبھالتی ہے۔
یہ ہمیں اپنی ذات سے جڑے رہنے دیتی ہے، بغیر اس کے کہ ہم دوسروں کے تاثرات کے محتاج بن جائیں۔
یاد رکھیے، اونچی آوازیں عمارتیں نہیں بناتیں، لیکن خاموش قدم اثر ضرور چھوڑتے ہیں۔
خاموشی خوف نہیں، پختگی ہے۔ یہ خاص طور پر ان خوابوں کے لیے ضروری ہے جو ابھی نوزائیدہ ہوں، نیا منصوبہ، نیا کاروبار، نئی سوچ، یا کوئی ذاتی مقصد، ان سب کے لیے خاموشی ایک حفاظتی چادر ہے۔
سو اپنے خواب کو بیج کی طرح مٹی میں دبائیں، اس پر صبر کا پانی ڈالیں، حسد کی نظروں سے بچائیں، اور جب وہ زمین کو چیر کر نکلے، تب دنیا کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، بلکہ آپ کے نتائج خود بولیں گے۔ اسی لیے کہا گیا ہے: ”خاموشی سے کام کرو تاکہ تمہاری کامیابی شور مچائے۔”