جب زمین پر ظلم کی آندھیاں چل رہی ہوں، جب معصوم بچوں کی لاشیں گلیوں میں بکھری ہوں، جب ماوں کی گودیں اُجڑ رہی ہوں، جب اسپتالوں، اسکولوں اور گھروں پر بم برس رہے ہوں، تو دنیا کا ہر حساس و ذی شعور انسان یہی کہے گا کہ: ”غزہ لکھیں، غزہ بولیں اور اہل غزہ پر ہی بات کریں۔“
غزہ کوئی سیاست کا موضوع نہیں، یہ انسانیت کا مقدمہ ہے۔ آج دنیا بھر کے میڈیا پر سینکڑوں خبریں چلتی ہیں: سیاست، کھیل، فلمیں، کاروبار مگر ان خبروں کے ہجوم میں وہ ایک چیخ، وہ ایک سسکی، وہ ایک ماتم دب کر رہ جاتا ہے جو غزہ سے اُٹھتا ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کی چکاچوند میں وہ اندھیرا دِکھائی نہیں دیتا جو فلسطین کے ہر گھر میں اُتر آیا ہے؟ غزہ اِس وقت ایک کھلا زخم ہے اور دنیا کی خاموشی نمک پاشی کی مانند ہے۔ بمباری کی گھن گرج میں بچوں کی ہچکیاں دب جاتی ہیں، ماو¿ں کی آہیں بے صدا ہوجاتی ہیں اور دنیا شطرنج کی بساط پر اپنے مہرے سجاتی رہتی ہے۔ مگر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمیں لکھنا ہوگا…. غزہ پر۔ہمیں بولنا ہوگا ….غزہ کے حق میں۔ ہمیں بات کرنی ہوگی …. صرف اور صرف غزہ کی۔ یہ وقت کسی اور بحث کا نہیں۔ نہ مہنگائی کی، نہ سیاست کی، نہ کھیلوں، نہ فیشن کی۔ یہ وقت صرف اُس ایک چیخ کو آواز دینے کا ہے جسے دنیا نے نظرانداز کیا ہے۔
جو بچہ اسکول جاتے ہوئے شہید ہو جائے، جو باپ اپنے بیٹے کی لاش خود دفنائے،جو عورت بچوں سمیت ملبے تلے دب جائے، کیا اُن کی بات کرنے کا وقت نہیں آیا….؟؟ ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں تو غزہ کے لیے، ہم جلسوں میں جائیں تو غزہ کے حق میں، ہم تحریریں لکھیں تو غزہ کی تصویر بن کر، ہم دعائیں مانگیں تو اہلِ غزہ کی بخشش، آزادی اور مدد کے لیے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ فلسطین کوئی دُور دراز کی زمیں نہیں، یہ وہی سرزمین ہے جہاں ہمارے انبیاءنے قدم رکھا، جہاں قبلہ اوّل ہے، جہاں حق اور باطل کی جنگ صدیوں سے جاری ہے۔ وہاں کی خاک مقدس ہے، وہاں کا ہر بچہ ہمارے لیے امانت ہے۔ کیا ہم اس وقت بھی خاموش رہیں جب غزہ میں اسپتالوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے؟ جب میڈیا کی آوازیں دبا دی جارہی ہیں؟ جب حق گو صحافی قتل کیے جارہے ہیں؟ جب پوری قوم کو اجتماعی سزا دی جارہی ہے؟ ….نہیں!! ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے قلم کو میدانِ جنگ بنانا ہوگا، اپنی زبان کو نعرہ حق، اپنی سوچ کو فلسطین کے لیے وقف کرنا ہوگا۔ آج اگر ہم نے صرف غزہ پر بات نہ کی تو ہم تاریخ کے مجرم ہوں گے۔ یہ وقت صرف ایک مسئلے کا ہے، صرف ایک درد کا، صرف ایک آواز کا …. اور وہ ہے غزہ!
لہٰذا آئیے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ جب تک غزہ پر ظلم جاری ہے، ہم صرف غزہ پر بات کریں گے۔ جب تک غزہ آزاد نہیں ہوتا، ہم صرف غزہ کی آزادی کے لیے لکھیں گے اور جب تک غزہ کے بچوں کی آنکھوں سے خوف ختم نہیں ہوتا، ہم صرف غزہ کے لیے بولیں گے۔ غزہ لکھیں، غزہ بولیں اور غزہ پر ہی بات کریں، یہی آج کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ (مولانا محمد عبداللہ ۔ اسلام آباد)
