یہ چند دن پہلے کی بات ہے فیس بک پر اسکرول گھماتے ہوئے نظر اچانک ایک پوسٹ پر جم کر رہ گئی۔ یہاں کسی اہم کتاب کا تعارف کروایا گیا تھا۔ ساتھ ہی ایک لنک بھی موجود تھا، جہاں سے اس کی پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی تھی۔ میں لنک کے ذریعے کتاب تک پہنچا۔ کتاب کا نام ”دس سال خدا کی بستی میں” تھا۔ پڑھنا شروع کیا۔ کتاب شستہ نگاری کا عمدہ نمونہ تھی۔ نہایت رواں اور سلیس۔ میں اس کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا گیا۔ پڑھتا چلا گیا۔ یہ کتاب کسی مدرسے کے فاضل نے لکھی تھی۔ وہ اپنے تئیں ایک قطعی مایوس، حد درجہ شکوہ کناں اور شدید جذباتی نوجوان کی آپ بیتی تھی۔ دینی مدارس کے حوالے سے اس کا تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا تھا۔ وہ کچھ رویوں، کچھ پالیسیوں اور کچھ فیصلوں پر شدید نالاں تھا۔ اسے کہیں نفرت ملی تھی تو کہیں اس کے جذبات کا خون کیا گیا تھا۔ کہیں اس کی توقع کے برخلاف معاملہ کیا گیا تھا تو کہیں اسے تضاد ات نے ذہنی اذیت سے دوچار کیا تھا۔ سو، اسے جو کچھ سقم نظر آیا، جو خرابیاں اس کے مشاہدے میں آئیں اور جو کچھ اس کی طبعِ نازک پر گراں گزرا، اس نے اسے قلم سے گزار دیا۔ تقریباً دو سو صفحات کی ایک کتاب بن گئی۔ شایع ہوئی۔ جسے دینی مدارس کے ”اصلی چہرے” کے طور پر لوگوں کو باور کرایا گیا اور بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی گئی۔
اس زمانے میں دینی مدارس کے حوالے سے خاص قسم کی حساسیت پائی جا رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی نظروں کا سب سے زیادہ چبھتا ہوا کانٹا مدارس ہیں۔ دہشت گردی کے اڈے ہونے کاالزام انہی کے سر ہے۔ جہالت کی یونیورسٹیاں ہونے کی دشنام انہی کو دی جاتی ہے۔ ملکی قوانین بھی انہی کے تعاقب میں ہیں۔ انہیں تنہا کرنے، ان کی افادیت کو کم کرنے اور ان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ سیکولر لوگ ہوں یا دین دشمن این جی اوز، اپنا پورا زور خیر کے ان سرچشموں کو ہمیشہ کے لیے خشک کر دینے پر صرف کیے ہوئے ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے ملک کو دینی اقدار سے خالی کرنے، سیکولر پاکستان کی طرف تیز ی سے بڑھنے اور پاکستان کو اندلس و غرناطہ بنانے کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہیں تو وہ دین کے یہی صافی چشمے اور حقیقی مراکز ہیں۔ اس سب پر مستزاد اور نہلے پہ دہلا وہ فضلائے مدارس ہیں، جو طوطا چشمی کا ثبوت دیتے ہوئے اندر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو پر کا پرندہ بنا کر پیش کرتے اور دشمن کا کام آسان بناتے ہیں۔
رہزنوں سے گلہ نہیں، رہبروں سے سوال ہے۔ کیا ملک کے دیگر شعبے ہر طرح کی کوتاہیوں سے مکمل پاک ہیں؟ کیا عصری تعلیم گاہیں اخلاق و کردار کے اعلی مرتبے پر فائز ہیں؟ کیا ملک کے دیگر حصوں سے تمام برائیوں کا خاتمہ ہو چکا؟ کیا انتہاپسندانہ سوچ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پروان نہیں چڑھائی جا رہی؟ کیا دہشت گرد ڈکلیئر ہونے والوں میں یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ نہیں تھے؟ کیا یونیورسٹیوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں؟ کیا اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں سیاست کا گڑھ نہیں بن چکیں؟ سچ، حقیقت اور انصاف یہ ہے کہ کوتاہیاں ہر دو جگہ پر ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں، اسکول و کالج میں بھی اور مکتب و مدرسے میں بھی۔ مگر یہ درست نہیں کہ کسی ایک کوہی الزام و دشنام کا محور بنا دیا جائے۔ سارا ملبہ ایک ہی پر گرا دیا جائے۔ اگر آپ کسی ایک حصے، کسی ایک شعبے اور ایک طبقے کی برائیاں اکٹھی کر کے بیٹھ جاتے ہیں تو اس کی مثال کچرا دان سے زیادہ نہیں۔ ہر اچھے سے اچھے گھر میں بھی کچرا ایک خاص مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ مگر کچرا پورے گھر کے گندا ہونے کی ترجمانی نہیں کرتا۔ میں نے جب مذکورہ کتاب کو پڑھا تو مجھے اس کی حیثیت کچھ ایسی ہی لگی۔ چن چن کر خرابیوں کو بہ تکلف اکٹھا گیا، فن و ادب کے زور پر ان میں وزن پیدا کیا گیا اور فرضی کردار اور کہانی کے ذریعے انہیں مربوط کیا گیا تھا۔
تسلیم کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں۔ بچوں کو غیرضروری طورپر مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔ بعض اساتذہ کا رویہ نامناسب بھی ہوتا ہے۔ قانون کبھی ضرورت سے زیادہ سخت بھی ہوتے ہیں۔ بعض وجوہ سے طلبہ کو منتظمین مدرسہ سے شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ بعض مہتممین اصولوں کی خلاف ورزیاں بھی کرتے ہیں۔ کہیں کسی سربراہ کی اولاد بگڑ بھی جاتی ہے۔ کسی نے مالی غبن بھی کیا ہو گا۔ انگریزی زبان وغیرہ کی حد سے زیادہ مخالفت بھی بعض جگہ کی جاتی ہے۔ کہیں عصری تعلیم کو منع کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اردو ادب، شاعری اور جنرل نالج کے مطالعے سے گریز کا مشورہ دینے والے بھی کہیں پائے جاتے ہیں۔ مگر واضح رہے کہ یہ باتیں جزئیات کی حیثیت رکھتی ہیں، کلیات کی نہیں۔ انہیں آپ سب کا سب اور کل کا کل نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی مثالیں پس ماندہ علاقوں، چھوٹے چھوٹے مدرسوں اور آخری صف میں نظر آنے والے مکاتب میں ملتی ہیں۔ آپ مثال وہاں سے لیجیے، جو مثالی مدرسے کہلاتے ہیں تو پھر بات بنے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے، بے نام اور غیرمعیاری مدرسے میں پائی جانے اور اچھالی جانے والی کوتاہی کا مصداق سب سے پہلے بڑے مدرسے بنتے ہیں۔ غلطی کہیں پاتال میں ہوتی ہے۔ الزام و دشنام اوج کمال کو پہنچے ہوئے مدرسے کو جاتا ہے۔
اب میں بتاتا ہوں مدرسے کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ مدرسے کیا ہوتے ہیں؟ درون خانہ کیا کیا جاتاہے؟ کیسی تربیت دی جاتی ہے؟ کہاں مطالعے سے منع کیا جاتا ہے؟ کب انتہا پسندی سکھائی جاتی ہے؟ مدرسے کی پروڈکشن کیا ہوتی ہے؟ یہ ”خدا کی بستی” میں گزرے ہوئے ”دس” نہیں، ”چالیس” سالوں کی سرگزشت ہے۔ یہ فرضی نہیں، حقیقی ہے۔ یہاں محمد انور نام کا ننھا سا بچہ سندھ کے ایک مدرسے میں داخل کروایا جاتاہے۔ جس پر وہ سب کچھ بیتتا ہے، جو کسی بھی مدرسے میںپڑھنے والے پر بیت سکتا ہے۔ وہ نورانی قاعدہ سے سفر کرتا ہوا انتہاء تک پہنچتا ہے۔ وہ تدریس بھی کرتا ہے۔ اسے کسی نے اردو ادب کے مطالعے سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ وہ ادیب بن جاتا ہے۔ وہ ورکنگ جرنلسٹ بنتا ہے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے اخبار کا کالمسٹ بنتا ہے۔ اس سے کسی نے نفرت نہیں کی۔ وہ چھ، سات سال کی عمر میں مدرسے گیا تھا، اسے چالیس سال بیت چکے، وہ آج بھی مدرسے میں ہی بیٹھا ہے۔ آپ اس ”خودنوشت” کو ایک مولانا، صحافی، ادیب، استاذ اور ماہر فن کی سرگزشت کے ساتھ ساتھ ”مدرسہ کہانی” کے طور پر بھی پڑھیے۔ نظر بھی آئے گا اور سمجھ بھی کہ اصل حقیقت یہ ہے۔ جو کچھ عالمی طاقتیں اور میڈیا کہہ رہا ہے، جو کچھ نادان دوست لکھ رہے ہیں، جو کچھ Negativity پھیلائی جا رہی ہے، وہ یا تو جھوٹ ہے یا پھر مبالغہ۔ اگر مدرسے کے خلاف پروپیگنڈے میں میں یا آپ شامل ہوتے ہیں تو ہم اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ ہم دشمنان اسلام و پاکستان کا کام آسان بنا رہے ہیں۔