لاہور/کراچی/اسلام آباد(خبرایجنسیاں) مارکیٹ میں سپلائی معطل ہونے سے چینی کی قلت شدت اختیار کرگئی،عوام کو 200روپے کلو میں بھی چینی دستیاب نہیں۔ گلی محلے کی سطح پر پرچون دکانداروں کے پاس چینی ختم ہو گئی ہے اور اب شہریوں کو 200روپے کلو میں بھی چینی دستیاب نہیں ۔
چند بڑے اسٹورز اور دکانداروں کے پاس چینی موجود ہے تاہم وہ بھی 200روپے کلو میں فروخت کر رہے ہیں ۔صدر کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن لاہور طاہر ثقلین بٹ نے کہا ہے کہ پنجاب کا متعلقہ محکمہ شوگر ملز اور ڈیلرز سے پوچھ گچھ کرنے کے کی بجائے چھوٹے دکانداروں کو جرمانے اور گرفتاریاں کر رہا ہے جو قابل مذمت ہے ۔
ہم بر ملا کہہ رہے ہیں حکومت ہمیں اپنے اعلان کردہ نرخوں پر فراہمی یقینی بنائے ہم حکومت کے اعلان کر دہ نرخ پر ہی فروخت کریں گے۔
ادھرکمشنر کراچی سید حسن نقوی نے شہر میں چینی کے سرکاری نرخ کی خلاف ورزی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے شہر میں چینی کے گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا۔
کریک ڈائون کے پہلے روز تمام اضلاع میں87گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور10لاکھ77 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا، 7دکانیں سیل کی گئیں،جن میں 6 دکانیں آرام باغ میں جبکہ ایک صدر سب ڈویژن میں سیل کی گئی اوردو گراں فروشوں کوگرفتار کرلیاگیاہے۔
کمشنر نے تمام ڈپٹی کمشنرزکو اپنے اپنے ضلع میں کارروائی کے لیے چینی کی قیمت چیک کرنے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر زاور مختارکاروں پر مشتمل خصوصی ٹیمیں بنانے کی ہدایت کی ہے ۔ڈپٹی کمشنر جنوبی جاوید نبی کھوسو کے مطابق جنوبی ضلع مجموعی طور پر32گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کی گئی،ان پرتین لاکھ 71 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
کارروائی میں ضلع جنوبی میں سات دکانیں سیل کی گئی ہیں جبکہ دو گراں فروش گرفتار کیے گئے ۔ڈپٹی کمشنر شرقی ابرار جعفر کے مطابق شرقی ضلع میں مجموعی طور پر 25دکانداروں کے خلاف کارروائی کی گئی جس میں 5 لاکھ 25 ہزار روپے سے زائد جرمانہ عاید کیا گیا۔
ضلع غربی میں دو دکانداروںپر6 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ۔کیماڑی ضلع میں13دکانداروںپر45 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا،ضلع وسطی میں چینی کے 5 گراں فروشوں کے خلاف 25 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ ضلع ملیر میں 3 گراں فروشوں پر75 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ضلع کورنگی میں7گراں فروشوں کے خلاف 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے شوگر سیکٹرسے متعلق اہم فیصلہ کر لیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر شوگر سیکٹر میں حکومتی مداخلت ختم کرنے کی تیاری کرتے ہوئے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شوگر انڈسٹری مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کی جائے گی جس کیلئے تجاویز تیار کر لی گئیں۔ذرائع وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق حکومت صرف 5 لاکھ ٹن چینی کا بفر اسٹاک رکھے گی جبکہ اس کے علاوہ مداخلت نہیں کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ شراکت داروں کے ساتھ مشاورت سے تجاویز کا فائنل ڈرافٹ آئندہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کیا جائے گا۔ حکومت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پاس ایک ماہ کی کھپت کے برابر بفر اسٹاک رکھے گی۔
ڈرافٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ڈی ریگولیٹ کرنے پر قیمتیں کنٹرول نہ ہوئی توسبسڈی کا حجم بڑھایا جا سکتا ہے، چینی سرپلس ہونے پر برآمد ہوگی تو کسان کو گنے کے بہتر دام مل سکیں گے۔پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلیے شوگر ملز کو 50 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد تک چلایا جائے گا۔
شوگر ملز کو پوری صلاحیت پر چلا کر گنا استعمال کرنے سے 2.5 ملین ٹن اضافی چینی پیدا کی جا سکے گی۔ڈرافٹ میں تجویز ہے کہ کھپت کے علاوہ اضافی چینی کو برآمد کر کے 1.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے، ایک ماہ کی کھپت کے برابر ٹی سی پی کے ذریعے بفر اسٹاک ہولڈ کے علاوہ باقی چینی نجی شعبہ ڈیل کرے گا۔
دریں اثناء وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ چینی کی قیمتوں اور دستیابی کے حوالے سے ایسی صورتحال نہیں جیسی بیان کی جاتی ہے۔ایک انٹرویو میں رانا تنویر حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے شوگر سیکٹرکو ڈی ریگولیٹ کرنے کے لیے اویس لغاری کی سربراہی میں کمیٹی بنادی ہے اور کمیٹی سے 30 دن میں لائحہ عمل طلب کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منگل کو کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا ہے اور جمعہ کو اگلا اجلاس ہوگا، ہم اس سمت میں کام کررہے ہیں کہ شوگرسیکٹر ڈی ریگولیٹ بھی ہوجائے اور اس میں مسابقت بھی آجائے جس سے کارکردگی بہتر ہوگی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں مزید شوگر ملز کے لائسنس جاری کیے جائیں جو اچھا بزنس کریگا وہ رہ جائے گا اور باقی بند ہو جائیں گی۔رانا تنویر نے مزیدکہا کہ کچھ دکانداروں کے پاس اسٹاک ہوتاہے مگر وہ سپلائی کے خدشات کی وجہ سے مال باہر نہیں لاتے۔
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا کہنا ہے چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سختی سے مانیٹرنگ ہو رہی ہے، امید ہے کہ ایک دو روز میں چینی کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی۔
ایک انٹرویو میں وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا کہنا تھا چینی کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ ایکسپورٹ کو قرار دیا جا رہا ہے تو اس میں یہ چیز سمجھنا ضروری ہے کہ چینی کے پچھلے سیزن میں پروڈکشن 6.8 ملین ٹن کے قریب تھی، جو کہ کافی تھی مقامی استعمال کے لیے اور آپ کے پاس ایک بڑا سرپلس تھا جس کی بنیاد پر ایکسپورٹ کی اجازت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار چینی کی پروڈکشن 5.8 ملین ٹن رہی جو کہ پروجیکشن سے ایک ملین ٹن کم تھی جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔رانا احسان افضل نے بتایا کہ جب وزیراعظم شہباز شریف کو معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر چینی کی ایکسپورٹ کو روکنے کا کہا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا جب چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی تو اس وقت اضافی چینی موجود تھی جس کے بعد 5 لاکھ ٹن اضافی بفر رکھنے کے بعد چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی۔