غزہ مظالم پر مجرمانہ خاموشی، عالمی برادری اِس دھبے کو کبھی نہیں دھو سکے گی

رپورٹ: علی ہلال
غزہ میں 22 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت پر دنیا کی خاموشی پر ’فائنانشل ٹائمز‘جیسا ادارہ بھی آخرکار خاموش نہ رہ سکا۔ اِس وقت جب غزہ نسل کشی کے بائیس ماہ ہوئے ہیں اور اسرائیل نے غزہ میں نہ صرف قتل عام کا خون آشام سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ غزہ کا محاصرہ کرتے ہوئے ہر قسم کی انسانی امداد کی راہیں بند رکھی ہوئی ہے۔ ایسے میں عالمی برادری مکمل خاموش ہے۔
اس خاموشی کی گونج مگر اس وقت مختلف کونوں سے اٹھنے لگی ہے جسے دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے بعض اداروں نے خبردار کردیا ہے کہ نتیجہ بہت بھیانک ہوگا۔ فائنانشل ٹائمز نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ دنیا فلسطینی عوام کو دھوکہ دے رہی ہے اور جب غزہ بھوک کا شکار ہے تو مغربی اتحادیوں کو اسرائیلی فوجی حملے کو روکنے کے لیے دباو ڈالنا چاہیے۔ جریدے کے مطابق دنیا نے انسانی المیے کی ایسی صورتِ حال شاذ و نادر ہی دیکھی ہوگی جیسی غزہ میں سامنے آرہی ہے، جہاں محصور فلسطینیوں کی تصاویر موت اور تباہی کی عکاسی کر رہی ہیں۔ یہ سب تقریباً 22 ماہ سے جاری اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ خواتین اپنے کمزور، ہڈیوں سے جھلکتے بچوں کو اٹھائے پھرتی ہیں، اسپتال زخمیوں کے ہجوم سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور لاشوں سے بھری بوریاں قطار در قطار عوام کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ غزہ کا پورا علاقہ اجتماعی قحط کا شکار ہے جبکہ اسرائیلی فوجی اُن فلسطینیوں کو بھی مار رہے ہیں جو کئی گھنٹے چل کر امدادی مراکز تک پہنچتے ہیں جو کہ ایک ناکام اور جانبدار امدادی نظام کے تحت کام کررہے ہیں، جسے امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے اور جو انسانی ہمدردی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
جریدے کے مطابق اسرائیلی حملے کے نتیجے میں گزشتہ تقریباً دو برسوں میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 60 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ غزہ بھر میں پورے کے پورے شہر تباہ کردیے گئے ہیں اور تقریباً 2.1 ملین کی آبادی کو بنجر زمینوں پر دھکیل دیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع یسرائیل کاٹس نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ جنوبی غزہ میں ایک ’انسانی شہر‘ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ابتدائی طور پر چھ لاکھ افراد کو جمع کیا جائے اور بعد میں باقی تمام کو بھی وہاں منتقل کر دیا جائے۔ غزہ نسل کشی کے خطرناک نتائج کو دیکھتے ہوئے صہیونی سابقہ ذمہ داروں نے بھی خطرے کی نشاندھی کردی ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے خبردار کیا کہ یہ اقدام ایک حراستی کیمپ کی مانند ہوگا بالکل جیسے دوسری جنگِ عظیم میں نازیوں کے کیمپ تھے۔
اخبار نے نشاندہی کی کہ جب اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے ردعمل میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تو دنیا نے اسرائیل کا ساتھ دیا، اُسے اپنے دفاع اور حملہ آوروں کو سزا دینے، نیز حماس کی جانب سے اغوا کیے گئے 250 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے جائز قدم سمجھا۔ جریدے کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کو انہیں قیدیوں کو بہت پہلے رہا کر دینا چاہیے تھا اور انہیں بطور سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا قابلِ مذمت ہے، لیکن اسرائیل نے اپنے حملے کو مناسب جواب سے کہیں آگے بڑھا دیا ہے۔ جیسے جیسے جنگ طویل ہو رہی ہے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہ محض دفاعی کارروائی نہیں بلکہ انتقامی حملہ ہے جسے وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی انتہاپسند حکومت نے فلسطینی معاشرے کے تانے بانے کو تباہ کرنے کے ارادے سے جاری رکھا ہے۔ یہی منظرنامہ مغربی کنارے میں بھی ہے، اگرچہ محدود پیمانے پرہے لیکن دُہرایا جارہا ہے جہاں یہودی آبادکاروں کے تشدد نے ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔
جریدے نے لکھا ہے کہ اب کچھ نسل کشی کے ماہرین (اگرچہ ابھی بھی تھوڑی تعداد میں ہیں لیکن بڑھ رہے ہیں) یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے اقدامات غزہ میں نسل کشی کے مترادف ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بیتسیلم‘ نے بھی پیر کے روز ایک رپورٹ میں یہی نتیجہ اخذ کیاہے جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کی پالیسی اور اس کے ہولناک نتائج ایک واضح اور غیرمبہم نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیل جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے فلسطینی معاشرے کو تباہ کررہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے مگر جبری نقل مکانی، جنگی دباو¿ اور امداد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے جیسے اقدامات اس کی پالیسی کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ حقیقت تقریباً سب تسلیم کرتے ہیں کہ پوری قوم کو صرف حماس کے اقدامات کی سزا دی جارہی ہے۔
اس سب کے باوجود، مغربی ممالک جنہوں نے اسرائیل کی حمایت کی ہے اب بھی نیتن یاہو پر جنگ بند کرنے کے لیے ضروری دباو ڈالنے سے انکاری ہیں۔ خصوصاً امریکا کی سابق ٹرمپ انتظامیہ جو سب سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگرچہ بعض مغربی ممالک کی طرف سے مذمت کے بیانات آرہے ہیں مگر یہ ناکافی اور دیر سے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کو نیتن یاہو اور اس کی حکومت پر پابندیاں لگانی چاہئیں، جب تک کہ وہ جنگ کو فوری طور پر بند نہیں کرتے اور امداد کے راستے کھولنے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہیں اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت بند کردینی چاہیے۔ مزید ممالک کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی طرح فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے۔ عرب ممالک بھی اس میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔مصر، اُردن اور متحدہ عرب امارات جیسی وہ ریاستیں جن کے اسرائیل سے تعلقات ہیں، انہیں واضح پیغام دینا چاہیے کہ جب تک اسرائیل اپنا رویہ نہیں بدلتا تعلقات معمول پر نہیں رہ سکتے۔
اِس ہفتے اسرائیل نے تزویراتی جنگ بندی اور انسانی راہداریوں کا اعلان کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت پر بین الاقوامی دباو اثر ڈال رہا ہے، لیکن یہ سب نہایت ناکافی اور بہت تاخیر سے ہے۔جریدے کے مطابق دنیا فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑ رہی ہے اور یہ ایک ایسی اخلاقی ناکامی ہے جو مغربی ممالک کو سالوں تک پیچھا کرتی رہے گی۔خیال رہے کہ یورپی ممالک کی سطح پر اب معاملہ حد سے بڑھ جانے کے بعد خطرہ محسوس کیا جانے لگا ہے جس کے اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ہالینڈ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں تعینات اسرائیلی سفیر کو طلب کرے گی تاکہ غزہ میں ’ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ دفاع‘ صورتحال کی مذمت کی جاسکے۔ ساتھ ہی انتہاپسند دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کے دو وزرا پر ہالینڈ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ان دونوں وزیروں؛ ایتمار بن غفیر اور بتسلئیل سموترچ کو ہالینڈ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہالینڈ کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے فلسطینیوں کے خلاف بار بار تشدد پر اُکسانے اور غزہ میں ’نسلی صفائی‘ کی ترغیب دینے کی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ یہ ڈچ اقدام ان فیصلوں کے بعد آیا ہے جو گزشتہ ماہ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ناروے کی جانب سے کیے گئے تھے۔ ہالینڈ کی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی اس سفارش کی حمایت کرتی ہے جس میں اسرائیل کی یورپی تحقیقاتی فنڈنگ پروگرام تک رسائی محدود کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اگر یہ ثابت ہوگیا کہ اسرائیل یورپی یونین کے ساتھ کیے گئے امدادی معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے تو ہالینڈ یورپی تجارتی پابندیاں عائد کرنے پر زور دے گا۔