ایک فوٹوگراف ہے جس پر مذہبی ترغیبی کوٹ درج ہے

لمحوں میں بدلتی کیفیات

تحریر: میمونہ تنویر، کراچی


مجھے محسوس ہوا کہ ٹانگیں بے جان ہو رہی ہیں، اضطراب کی کیفیت، بے چینی کی انتہا، احساسات ساکن، سوچیں منجمد، یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں اسپتال کےآبزرویشن روم کے بیڈ پر پڑے ہوئے ساتھ کھڑے بچوں پر نظر دوڑائی، تو ذہن میں صرف یہی سوال تھے کہ کیا وقت آخر آگیا؟ ایسا ہوا تو ان کا کیا ہوگا؟ کون سنبھالے گا انہیں؟ کون دیکھے گا انہیں؟ حلق میں جیسے کانٹے آگ آئے ہوں۔ کچھ بولنے کی سکت نہ رہی، رگوں میں بجائے خون کے جیسے برف جم گئی ہو۔

آخرکار جسم کی تمام تر بچی کھچی توانائیاں اور حواس مجتمع کر کے شوہر کو دیکھا اور بمشکل زبان سے ایک جملہ ادا ہوا: میرے بچوں کا دھیان رکھیے گا۔۔۔۔
سوچ کی سوئی ایک جگہ پہ آ کے اٹک گئی کاش ایک مہلت مل جائے!!

ابھی توبہت کچھ باقی ہے!!!!!

میرے اِن الفاظ کے جواب میں خاموش اور پُرسکون بے بسی نے حواس کو جھنجھوڑا تھا۔۔۔۔
اور خیالوں کی اندھی وادی میں ایک خیال ہتھوڑا بن کر دماغ پہ برسنے لگا۔
موت بھی بھلا کسی کو مہلت دیتی ہے کیا؟
تخیل میں گونجنے والے ان الفاظ نے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
اب میں تیزی سے غفلت میں ڈوبے لمحات کا حساب کتاب کرنے لگی۔ خود کو خود ہی حوصلہ دینے لگی، دل ہی دل میں دعا کرنےلگی کہ نہیں ابھی تو بہت کچھ باقی ہے،ابھی تو زندگی کے بہت سے نشیب و فراز میں زندگی کے مقصد پر غور بھی نہں کیا، عمل تو بہت دور ہے ابھی۔
دل کے نہاں خانے سے دعا نکلی یا رب ایک موقع اور دے وہ سب کرنا ہے ابھی، جو تیری رضا ہے وہ سب کرنا ہے ابھی، جس میں تیرے بندے کی فلاح ہے۔
دل نادار کو ضمیر کی عدالت میں مجرم کی طرح کھڑا پایا اور حیران و پریشان بھی کہ بس یہ ہے زندگی، ایک سانس کا سفر، چلا تو دنیا کے اس طرف اور گلے میں اٹک گیا تو دنیا کے اس طرف۔
اس طرف اتنا مختصر، اور وہ نہ ختم ہونے والا، خوف سے دل کانپ اٹھا، ایسی جھرجھری آئی کہ روح کانپ اٹھی، جسم کا رواں رواں خوف کی شدید گرفت میں آ گیا۔

اس سارے منظر نامے میں زبان پے کلمہ کا ورد تھا، روح بے قرار و بے کل، دل خوف سے اٹا ہوا، لیکن آنکھوں میں عمیق سی امید جو مسلسل رحمت کے دروازے پہ دستک دے رہی تھی، آہستہ آہستہ یہ آواز بلند ہونے لگی، اتنی بلند جیسے میری سماعتوں کے پردے پھاڑ دے گی، ارد گرد کے منظر جیسے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور میں کچھ الگ سے منظر دیکھ رہی تھی، پھر میں نے قوت جمع کی اورہاتھ اٹھا کر خود کو محسوس کیا، حواس پر قابو پانے کی کوشش کی اور جٹھکے سے اٹھ کر ہاتھوں کو زور زور سے جھٹکا، ایسے ہی کافی وقت گزر گیا، پھرآہستہ آہستہ مجھے لگا میرے جسم میں سانسیں مستحکم ہو رہی ہیں، زندگی جیسے واپس لوٹ رہی ہے، دل، زبان اور روح نے بے ساختہ بلند آواز پکارا: الحمدللہ رب العالمین!! یا ربی۔
پھر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کیسا ہے وہ رحمان!
کہ ہمیں اپنی سب رحمتوں کے ساتھ کیسے مقصد کی طرف لوٹنے کا موقع دیتا ہے، توبہ کا موقع دیتا ہے، تا کہ ہم اسے توبہ النصوح بنا لیں اور یہ موقع وہ ہر کسی کو دیتا ہے!!!!
اب لمحے لمحے کی دعا ہے
یااللّٰہ میں موت کی سختی اور جہنم کی سیاہ آگ سے پناہ مانگتی ہوں۔
یااللّٰہ مجھے اِس دلفریب دنیا کے ہر منظر سے بیزار کر کے میرے قلب کو اپنی محبت سے مزین کر دے۔
تاکہ جب تجھ سے ملنے کا وقت آئے تو نا میں خوفزدہ ہوں اور نا غمگین۔
اے بے جان سی دُنیا تیرے اِس کھوکھلے اور بے وقعت وجود سے بیزاری کا اعلان کرتی ہوں کہ تجھ سے محبت میرے کسی کام نہ آئے گی۔۔۔

جو وجود دنیا کی عام سی آگ کا سامنا نہ کر سکے، اُسے سرکشی زِیب نہیں دیتی۔
اِس وجود کو حق تعالیٰ کی اطاعت کیلئے کوشاں رہنا چاہیے۔
کہ وہ اپنے بندوں کی نیک کوششوں کو ضائع نہیں کرتا۔

(یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ)
(ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً)
اے اطمینان والی جان
اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہو، وہ
تجھ سے راضی ہو۔ (القرآن)