اسپیکر پنجاب اسمبلی سے چند سوالات

اسپیکر پنجاب اسمبلی جناب ملک محمد احمد خان صاحب کے میڈیا پر حیران کن بیانات نظروں سے گزر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں آئین کے آرٹیکلز 62، 63 کا مخالف ہوں اور چاہیں تو انہیں نکال کر پھینک دیں، یہ آرٹیکلز آمریت دور کی نشانیاں ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسپیکر کو یہ اختیار دیا کہ وہ نشست کو خالی قرار دے، اگر وزیراعظم کو غلط بیانی پر نااہل کیا جاسکتا ہے تو ایوان کو تماشا بنانے والوں کو کیوں نہیں؟ اگر کوئی رکن حلف سے رو گردانی کرے گا توآرٹیکل 62، 63 کا اطلاق ہو گا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ آئین کے ان آرٹیکلزکا من پسند استعمال کیا جائے۔ میں اپنے آئینی اختیارات سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھوں گا، دوسری صورت یہ تھی کہ آرٹیکل 148 کے تحت فیصلہ کیا جائے۔

جناب اسپیکر بطور قانون کے طالب علم انتہائی ادب و احترام سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آرٹیکلز 62، 63 واقعی آمریت کی پیداوار ہیں تو آپ کی جماعت نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعہ ان آرٹیکلز کو نکال باہر کیوں نہ کیا؟ جہاں ایک طرف ان آرٹیکلز کی مخالفت کر رہے ہیں تو دوسری طرف حزب اختلاف کے چھبیس ممبران اسمبلی کو ایوان سے باہر نکلوانے کیلئے الیکشن کمیشن آفس میں انہی آرٹیکلز کا سہارا کیوں لے رہے ہیں؟ گویا آپ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ نواز شریف نے پاناما مقدمہ میں غلط بیانی کی تھی جس بنا پر ان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا؟ باوجود اس کے کہ آج تک مسلم لیگ ن پاناما کیس فیصلہ اور فیصلہ کرنے والے ججز اور ان کے سہولت کاروں کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے۔

آپ نے آرٹیکل 62، 63 کا سہارا لیکر حزب اختلاف کے ارکان کو برخاست کروانے کیلئے ذاتی حیثیت میں الیکشن کمیشن اسلام آباد آفس کا رُخ کیوں کیا؟ کیا یہ کام سرکاری ڈاک، سیکرٹری اسمبلی یا اسپیکر کی جانب سے نامزد وکیل نہیں کرسکتا تھا؟ آپ نے آرٹیکل 148کے تحت کاروائی کا عندیہ دیا، جناب والا، اس آرٹیکل میں تو صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کی باہمی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے، جبکہ اسمبلی ممبران بشمول اسپیکر کا شمار انتظامیہ کی بجائے مقننہ میں کیا جاتا ہے۔ اسپیکر صاحب، آرٹیکل 148کی کن دفعات میں درج ہے کہ اسپیکر، وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاج پر ریفرنس، الیکشن کمیشن آفس میں خود جمع کروانے جائیں گے؟کسی کو پھانسی دینی ہو یا پھر کسی کو ایوان سے نکال باہر کرناہو، ماضی میں عوام کے منتخب نمائندے عدالتوں کے رحم و کرم پر رہے ہیں۔ اسپیکر صاحب، آپ کا یہ ریفرنس مستقبل میں عوامی نمائندوں کو عدالتوں کے بعد اسپیکر اسمبلی کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف نہ ہوگا؟

جناب اسپیکر بقول آپ کے ریفرنس دائر کرکے آئینی ذمہ داری پوری کی ہے تو آپ کو بار بار میڈیا پر آکر اپنے اس فیصلے کا دفاع کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟ جناب اسپیکر اگر آپ کا بھیجا گیا ریفرنس مسترد ہوجاتا ہے تو کیا آپ اخلاقی طور پر اسپیکر کے عہدے کے ساتھ ساتھ ممبر پنجاب اسمبلی سے استعفا دینے کا اعلان کریں گے؟ یاد رہے اسپیکر جیسا آئینی عہدہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اسپیکر اپنی سیاسی جماعت کی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایوان کو چلائے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی آئے روز پریس کانفرنس اور میڈیا کے ساتھ بات چیت میں صرف حزب اختلاف کو نشانہ تنقید بناتے دکھائی کیوں دیتے ہیں۔

حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ بکنگھم یونیورسٹی لندن سے قانون کی ڈگری کا حامل، انتہائی نرم طبیعت اور مزاج کا بندہ اس حد تک جذباتی پن کا مظاہر ہ کیوں کررہا ہے؟ یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی اس وقت بظاہر ڈکٹیٹر بنے دکھائی دے رہیں۔ محترم اسپیکر صاحب، اقتدار سدا کسی کے پاس نہیں رہتا۔ آج آپ حکومت میں ہیں تو مستقبل میں حزب اختلاف بینچوں پر بھی بیٹھنا پڑ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی الیکشن کمیشن میں دائر ریفرنس کو واپس لیں اور ایوان کو غیرجانبدرانہ انداز اور سب کو ساتھ لیکر چلیں۔