احادیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعداد گیارہ آتی ہے، جن میں سے دو آپۖ کی زندگی میں فوت ہو گئی تھیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ، اور ام المومنین حضرت زینب جو ام المساکین کہلاتی تھیں، حضورۖ کی حیاتِ مبارکہ میں انتقال فرما گئی تھیں۔ باقی نو ازواج مطہرات حضورۖ کی حیات کے آخر تک رہی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ایک بیٹا حضرت ماریہ قبطیہ سے ہوا، باقی آپۖ کی ساری اولاد جن کا مختلف ناموں سے تذکرہ ملتا ہے وہ ام المومنین حضرت خدیجة الکبری کے بطن سے مکی دور میں ہوئی تھی۔
روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹے قاسم تھے جو مراہقت کی عمر کو پہنچے، گھوڑے پر سواری کر لیتے تھے، بلوغت کو نہیں پہنچے، اس سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے علاوہ حضورۖ کے اور بیٹوں کے نام طاہر، طیب اور عبد اللہ آتے ہیں لیکن ان سب کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں حیات رہیں، سب بیٹیوں کی شادی ہوئی اور ان کی اولاد بھی ہوئی۔ آپۖ کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب تھیں جن کا نکاح ان کے خالہ زاد حضرت ابو العاص بن ربیعہ سے ہوا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بڑے داماد حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے۔ کافی عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، بدر کے قیدیوں میں بھی تھے، بعد میں مسلمان ہوئے، صحابی بنے، اسلامی تاریخ کے بڑے جرنیلوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ میں ان واقعات کی تفصیل میں نہیں جاتا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت زینب اور حضرت ابو العاص بن ربیعہ کے باہمی معاملات کیا تھے اور حضورۖ کو حضرت ابو العاص بن ربیعہ پر کس قدر اعتماد تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہ حضرت عثمان بن عفان کے نکاح میں آئیں اور انہی کی وجہ سے حضرت عثمان بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ جب بدر کا معرکہ ہوا تو حضرت عثمان نے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن حضرت رقیہ شدید بیمار تھیں، اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوا۔ حضرت رقیہ کی اس بیماری کی وجہ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو بدر میں ساتھ جانے سے روک دیا تھا اور فرمایا تھا کہ رقیہ بیمار ہیں، تنہا ہیں، گھر میں کوئی ان کی تیمارداری کرنے والا نہیں ہے، اس لیے آپ مدینہ منورہ میں رہیں گے، قافلے میں ساتھ نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ بات حضرت عثمان کے اعزازات میں شمار ہوتی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا کہ آپ کو بدر میں شریک ہونے کا ثواب ملے گا اور بدر کی غنیمت کا حصہ بھی ملے گا۔ چنانچہ حضرت عثمان بدر میں شریک نہیں تھے لیکن امام بخاری نے بدریوں کی جو فہرست شمار کی ہے اس میں حضرت عثمان کا نام بھی ہے اور وہ بدریوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم حضرت عثمان کے نکاح میں دیں اور اس موقع پر اس اعتماد کا اظہار فرمایا کہ روایت میں ہے، اگر میری ستر بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دیتا چلا جاتا۔ حضرت ام کلثوم کا بھی حضور نبی کریمۖ کی حیات مبارکہ میں انتقال ہو گیا تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپۖ کی اولاد میں سے صرف حضورۖ کی سب سے چھوٹی، سب سے چہیتی اور پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ حیات تھیں، اور وہ بھی بعد میں چند مہینے حیات رہیں۔ باقی ساری کی ساری اولاد پہلے فوت ہو چکی تھی، حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے حضورۖ کے جو بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے، ان کا بھی دودھ پینے کی مدت کے دوران ہی انتقال ہو گیا تھا۔
سیدہ فاطمہ حضورۖ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں اور فطری بات ہے کہ سب سے چھوٹی اولاد کے ساتھ انسان کی محبت زیادہ ہوتی ہے۔ سیدہ فاطمہ طاہرہ طیبہ خاتون تھیں اور جناب نبی کریمۖ کے ساتھ ان کی محبت اور حضورۖ کی ان کے ساتھ محبت باپ بیٹی کی مثالی محبت ہے۔ سیدہ فاطمہۖ کا نکاح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا۔ یہ مثالی جوڑا تھا، ان کے نکاح کی تفصیلات بھی محدثین نے بڑے اچھے اور بہتر انداز میں بیان فرمائی ہیں۔
بخاری شریف کی ایک روایت کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جس میں ام المومنین حضرت عائشہ جناب نبی کریمۖ کے وصال کے وقت باپ بیٹی کی محبت کا منظر بیان فرماتی ہیں کہ حضورۖ کی بیماری کے ایام تھے، سیدہ فاطمہ والد محترمۖ سے ملاقات کے لیے آئیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر پائنتی میں بیٹھیں، حضورۖ نے حضرت فاطمہ کے سر، پشت پر ہاتھ پھیرا اور دونوں نے ایک دوسرے کا حال و احوال پوچھا۔ اس موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کے کان میں ایک راز کی بات کہی جو سن کر حضرت فاطمہ رونے لگ گئیں۔ جب رونا زیادہ ہوا تو حضورۖ نے کان میں دوسری بات کہی تو ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب وہ مجلس ختم ہوئی تو حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا کہ پہلے کیا بات ہوئی تھی کہ تم رو پڑی تھیں؟ اور پھر کیا بات ہوئی تھی کہ روتے روتے تم ہنس پڑی تھیں؟ حضرت سیدہ فاطمہ نے کہا کہ یہ باپ بیٹی کا راز ہے، میں نہیں بتاؤں گی۔ چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں راز نہیں بتایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ نے پھر پوچھا، بعض روایات میں ہے کہ ماں کا حق دے کر پوچھا کہ بحیثیت ماں میرا جو تم پر حق ہے، مجھے بتاؤ کہ وہ کیا بات تھی؟ حضرت فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے اب کوئی حرج نہیں، راز زندگی میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابا جان نے پہلے مجھ سے فرمایا کہ فاطمہ! میرا خیال ہے میں اسی بیماری میں جا رہا ہوں اور زیادہ دن نہیں رہوں گا، تو باپ کی جدائی کی بات سن کر میں رونے لگ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورۖ نے کان میں بات کہی کہ تم بھی جلدی میرے پاس آرہی ہو، تم بھی میرے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہو گی۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ خوش ہو گئیں کہ ابا جان کے ساتھ جدائی کا وقت بہت کم ہے۔
یہ بھی عجیب معرفت کی بات ہے، صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ دیکھو حضور نبی کریمۖ نے اپنی وفات کی خبر دی تو فاطمہ رونے لگ گئیں، اور فاطمہ کو ان کی وفات کی خبر دی ہے تو ہنسنے لگ گئیں کہ تم بھی جلدی فوت ہوگی۔ بظاہر تو کوئی ہنسنے والی بات نہیں تھی لیکن یہ محبت اور پیار کی بات تھی کہ ابا جی کے ساتھ میرا جدائی کا وقفہ کم ہے۔ چنانچہ اس کے چند مہینوں کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔
یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا براہ راست کنبہ تھا، ازواج مطہرات، آپ کی بیٹیاں اور آپ کے بیٹے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
حضرت زینب سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نواسے تھے اور ایک نواسی تھی۔ حضرت علی بن ابی العاص حضورۖ کے سب سے بڑے نواسے ہیں اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورۖ کی سب سے بڑی نواسی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں یہ جو آتا ہے کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو ایک بچی آپ کی گود میں کھیلتی رہتی تھی، کبھی کندھے پر چڑھ جاتی تھی، وہ بچی امامہ بنت ابی العاص ہے۔ حضرت فاطمہ کے وصال کے بعد یہ امامہ حضرت علی کے نکاح میں آئیں اور ان کے بھائی حضرت علی بن ابی العاص جوان ہوئے، مختلف جنگوں میں ان کی شمولیت کا ذکر روایات میں آتا ہے۔
دوسری قسط:
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سب سے بڑے حضرت حسن، پھر حضرت حسین، پھر حضرت محسن اور بیٹی حضرت زینب تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ سب سے زیادہ شہرت حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے پائی ہے۔ ان دونوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ہیں اور یہ بات خود اعزاز ہے کہ حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں اور یہ بھی بڑا اعزاز ہے کہ بچپن میں امامہ کی طرح یہ بھی حضور کی گود میں کھیلے ہیں۔ کبھی حضور کے کندھے پر چڑھ جاتے تھے، کبھی اردگرد گھومتے رہتے تھے۔ انسانی فطرت ہے کہ انسان کو اولاد سے پیار ہوتا ہے، لیکن اولاد کی اولاد سے فطرتاً زیادہ پیار ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کے ساتھ جتنا اس کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کھیلتے ہیں، اولاد کے ساتھ شاید اتنا موقع نہیں ملتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نواسوں نواسیوں سے فطری محبت تھی اور انہیں دیکھ کر حضور بڑے خوش ہوتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ بہت دل لگتا تھا اور بہت خوش ہوتے تھے۔
حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنو تمیم کے سردار تھے، وہ ایک دفعہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں سینے سے لگایا اور بوسہ دیا۔ حضرت اقرع کو بڑا تعجب ہوا، عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ بچوں کو پیار کرتے ہیں، بوسہ دیتے ہیں؟ فرمایا ہاں بچوں کا حق ہوتا ہے کہ ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی ان کو پیار کریں اور شفقت سے بچے کی شخصیت بنتی ہے۔ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ! میرے دس بیٹے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تیرے سینے میں گوشت کا دل نہ ہو تو میں کیا کروں؟ یعنی یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ بچے ہو جایا کرتے تھے۔ آدمی بچے کے ساتھ بچہ بن جائے تو بچہ بڑا خوش ہوتا ہے۔ حضور بھی ویسے ہی جیسے بچے ہوتے ہیں، ان سے معاملہ کرتے۔ کبھی کوئی حرکت، کبھی کوئی حرکت۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ یہ بچے کھیلتے رہے ہیں۔ بہرحال حضرات حسنین کریمین وہ بچے ہیں جنہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گود میں پرورش پائی ہے، آپ کے سائے میں تربیت حاصل کی ہے، جو حضور کے ساتھ کھیلے ہیں۔
ان میں سے حضرت حسن کے بارے میں تو بخاری شریف کی بڑی معروف و مشہور روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جمعة المبارک کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، مسجد سے باہر سامنے کھلے میدان میں حضرت حسن کھیل رہے تھے، کھیلتے ہوئے گر گئے، حضور نے دیکھا تو آپ سے برداشت نہیں ہوا۔ یہ بھی انسانی فطرت ہے۔ منبر سے اترے، جا کر حضرت حسن کو اٹھایا، ان کے کپڑے جھاڑے، گود میں اٹھائے ہوئے منبر پر آگئے اور خطبہ میں کھڑے ہو گئے اور ایک جملہ فرما یا ”ان ابنی ہذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین”۔ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ رب العزت میرے اس بیٹے کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔ یہ حضرت حسن کی عظمت کی بات بھی تھی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی بھی تھی جو اللہ پاک نے پوری کی۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ امت کی وحدت کی علامت ہیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ عزیمت کی علامت ہیں۔ دونوں بھائیوں سے اللہ پاک نے دو بڑے کام لیے۔
ایک وقت آگیا تھا کہ امت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک طرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے اور ایک طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اْدھر وہ امیر تھے، اِدھر یہ امیر تھے۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد جب حضرت حسن خلیفہ بنے اور نئے سرے سے معرکہ آرائی کی تیاریاں ہونے لگیں تو روایات میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب ساتھیوں سے مشورہ کیا تو بتایا گیا کہ بہت بڑا لشکر حضرت حسن کے جھنڈے کے نیچے ہے۔ بخاری کی روایت میں تفصیلات موجود ہیں۔ حضرت معاویہ نے کہا نہیں، میں نہیں لڑوں گا، میں حسن سے صلح کرنا چاہتا ہوں۔ پیغام بھیجا کہ حضرت حسن جن شرائط پر بھی صلح کرنا چاہیں میں تیار ہوں۔ حضرت معاویہ نے بھی حوصلے کا مظاہرہ کیا اور حضرت حسن عنہ نے بھی بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار چھوڑنا، امارت چھوڑنا، ایک بادشاہ کا دوسرے بادشاہ کے سامنے، ایک حکمران کا دوسرے حکمران کے سامنے سرنڈر ہونا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ یہ حضرت حسن ہی کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اقتدار اور خلافت سے دستبرداری کرتے ہوئے حضرت معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ساری امت اکٹھی ہو گئی۔ وہ امت جو حضرت عثمان کی شہادت تک متحد تھی، پھر درمیان میں چار پانچ سال متفرق رہی، اس کے بعد حضرت معاویہ کے ہاتھ پر حضرت حسن کے ایثار اور قربانی کی وجہ سے دوبارہ متحد ہوئی۔ پھر ساڑھے انیس سال حضرت معاویہ کی خلافت کا دور ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے ہیں جنہیں حضور نے سردار کا لقب اور خطاب دیا۔
ان کا ایک اور واقعہ ہے، بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور بازار جا رہے تھے، حضرت فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرے تو باہر سے آواز دی ”این لکع” بچہ کدھر ہے؟ انہیں باہر آنے میں تھوڑی دیر لگ گئی۔ غالباً حضرت فاطمہ حضرت حسن کو تیار کر رہی تھیں۔ ماں کو خیال ہوتا ہے کہ بچہ باہر جا رہا ہے تو ہاتھ منہ صاف کرتی ہے اور کپڑے وغیرہ جھاڑتی ہے۔ جب حضرت حسن باہر نکلے تو حضور نے بازو پھیلا دیے اور حضرت حسن بھی بازو پھیلاتے ہوئے آئے اور دونوں نانا نواسہ آپس میں گلے ملے اور بھی بہت سی روایت ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے جنہوں نے حضور کی گود میں پرورش پائی، آپ کے ساتھ کھیلے اور حضور کی تربیت میں انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ایک روایت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ بات شاید میں نے پہلے حضرت عمر کے تذکرے میں بتائی تھی کہ امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب الخراج” میں تذکرہ کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق یہ تھا کہ وظیفوں کی تقسیم میں برابری ہونی چاہیے، کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے جبکہ حضرت عمر کی رائے یہ نہیں تھی، ان کی رائے یہ تھی کہ فضیلت کے درجات کے مطابق گریڈ سسٹم ہونا چاہیے، چنانچہ حضرت ابوبکر نے تو اڑھائی سال اپنے زمانہ خلافت میں برابر اموال تقسیم کیے، کسی کو کمی بیشی نہیں کی، جو ازواج مطہرات کو ملتا تھا، عام آدمی کو وہی کچھ دیتے تھے مگر حضرت عمر جب خلیفہ بنے تو انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی تقسیم کا نظام تبدیل کر دیا۔ وظیفوں کے لیے درجہ بندی کی، غالباً سات یا آٹھ گریڈ بنائے۔ سب سے زیادہ ازواج مطہرات کو، پھر اس سے کم، پھر اس سے کم۔ مختلف درجہ بندیاں کر کے حضرت عمر نے وظائف کی تقسیم کا نظام بنایا۔ حضرت صدیق اکبر کے زمانے میں گریڈ سسٹم نہیں تھا، حضرت عمر نے اپنی رائے اور اپنے اجتہاد کے مطابق گریڈ سسٹم بنایا تھا۔ امام ابو یوسف نے ”کتاب الخراج” میں ذکر کیا ہے کہ دس سال حضرت عمر نے اس نظام پر درجہ بندی کے مطابق وظائف تقسیم فرمائے، لیکن آخری سال ان کو احساس ہوا کہ درجہ بندی سے فرق پڑ جاتا ہے، تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت ابوبکر کی رائے ٹھیک تھی، مجھ سے خطا ہوئی ہے، درجہ بندی ٹھیک نہیں تھی، برابری ہونی چاہیے تھی، اگلے سال میں حضرت ابوبکر صدیق کی رائے کے مطابق تقسیم کا نظام ازسر نو تبدیل کروں گا، لیکن اگلا سال نہیں ملا اور اس سے پہلے وہ شہید ہو گئے تھے۔(جاری ہے)