ایک نوجوان کا سوال

ورکشاپ کا آخری سیشن سوال و جواب کے لیے مختص تھا۔ MBA پاس ایک نوجوان نے پوچھا کہ ”سر! ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات اخلاص، محنت، جدوجہد، مستقل مزاجی، تعلیم، مہارت، امانت، دیانت، جہد مسلسل سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کامیابی نہیں ملتی۔ جدھر بھی جائیں ناکامی ہی استقبال کرتی ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں بعض اوقات ان سب صفات کے نہ ہوتے ہوئے بھی کامیابی مل جاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے، سر!؟

نوجوان کا سوال بڑا ہی معقول، مدلل، تحقیقی اور روزمرہ کے حالات و مشاہدات کے عین مطابق تھا۔ واقعتا کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی انہیں کامیابی نہیں ملتی ہے۔تو یاد رکھیں! محنت، پلاننگ، امانت، دیانت، مستقل مزاجی، اخلاص، توجہ، کوشش ان سب کے ساتھ ساتھ قسمت، اچھا مقدر اور لک ہونا بھی ضروری ہے۔ تقدیر کی دو قسمیں ہیں۔ نمبر ایک: تقدیر مبرم۔ نمبر دو: تقدیر معلق۔ تقدیر مبرم وہ تقدیر ہوتی ہے جو بدل نہ سکے۔ مثال کے طور پر جس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو لکھ دیا ہے وہ ہوکر ہی رہے۔ اگر کسی کے لیے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے کہ اس کی اتنی زندگی ہوگی یا اس کی اتنی اولاد ہوگی تو پھر اس کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔ ویسے ہی ہوگا۔

جو چیز دعا، توجہ، محنت، کوشش اور جدوجہد سے بھی نہ بدل سکے وہ تقدیر مبرم میں آتی ہے۔ جو چیز، کام اور اشیاء دعا، توجہ، محنت، انسانی کوشش کے نتیجے میں بدل جائیں وہ تقدیر معلق کہلاتی ہیں۔دراصل اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزوں کو بہت سارے کاموں کے ساتھ معلق کردیا ہے۔حضرت علی سے کسی نے پوچھا: ”تقدیر کیا ہے؟” تو حضرت علی نے فرمایا: ”کھڑے ہوجائو! پھر کہا کہ ایک پائوں اٹھائو۔ اس نے ایک پائوں اٹھایا۔ حضرت علی نے فرمایا: ”اب دوسرا پائوں بھی اٹھائو۔” تو اس نے کہا: ”دوسرا پائوں نہیں اٹھاسکتا، اگر اُٹھائوں گا گرجائوں گا۔” حضرت علی نے فرمایا: ”یہی تقدیر کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ چیزوں کا مکلف بنایا ہے اور کچھ کا نہیں۔ انسان کچھ چیزوں کو اپنی محنت، توجہ، کوشش اور کسب سے حاصل کرسکتا ہے اور کچھ میں مجبور محض ہوتا ہے۔ وہ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

انسان کو جن چیزوں، کاموں اور اشیاء کا مکلف بنایا گیا ہے وہ تو اچھے اور منظم طریقے سے کرے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکلف بنایا ہے کہ وہ اپنا قیمتی ترین وقت ضائع نہ کرے۔ جو کام بھی کرے وہ اچھے اور منظم انداز میں کرے۔ انسان جتنی محنت کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو اسی طرح نوازے گا۔ ہر انسان کو اس کی محنت کی بقدر ہی ملتا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے: ”الکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہ” کہ محنتی آدمی کو اللہ تعالیٰ پسند رکھتے ہیں۔بہت ساری چیزو ںکو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزوں کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مال و دولت میں اضافہ کرے گا۔ جو شخص صلہ رحمی کرے گا، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے گا تو اس کی عمر اور اس کی دولت میں برکت ہوگی۔ جو شخص اپنے استاذ کی خدمت کرے گا، اس کا ادب و احترام کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے علمِ لدنی اور علمِ وہبی عطا فرمائیں گے۔ اس کے عمل میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔
دو بھائی تھے۔ ایک استاذ کی بہت خدمت کرتا تھا، دوسرا پنے استاذوں کی بے حد خدمت کرتا تھا جو اپنے استاذوں کی خدمت کرتا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ڈھیر سارے علم سے نوازا اور جو اپنے والدین کی خدمت کرتا تھا تو اس کے مال و دولت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ اس کے بیسیوں سچے واقعات شاہد ہیں کہ جنہوں نے اپنے والدین کی خدمت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت سے نوازا، اور جنہوں نے اپنے استاذوں کی خدمت کی، ان کا ادب و احترام کیا تو اللہ تعالیٰ نے علم میں اضافہ کیا۔چند سال پہلے کی بات ہے ایک دوست کی والدہ پر فالج ہوا۔ وہ شخص انتہائی غریب تھا، لیکن اس نے ماں کی بہت خدمت کی۔ اپنی ماں کے علاج معالجے کی خاطر اپنی گاڑی وغیرہ بھی فروخت کردی۔ چند ماہ کے بعد جب اس کی ماں صحیح ہوگئیں اور اسے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے نے میرے علاج کے لیے اپنی گاڑی اور دیگر سازو سامان فروخت کردیا ہے تو ماں کے دل سے بے ساختہ دعا نکلی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

اِدھر ماں کے دل سے دعا نکلی، اُدھر وہ قبول ہوگئی اور چند ہی ماہ کے بعد اس کا کاروبار ایسا چلا اور چمکا کہ یہ کروڑپتی پتی ہوگیا۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ قسمت کا کھیل ہے۔ یہ تقدیر معلق کے کرشمے ہیں۔اللہ نے جن کاموں کا ہمیں اور آپ کو مکلف بنایا ہے وہ کام تو ہمیں ڈٹ کر کرنے چاہئیں۔ ہم محنت کریں، کوشش کریں، پوری جدوجہد کریں، اچھی منصوبہ بندی کریں، استقامت دکھائیں، امانت داری سے کام کریں، دیانت کا دامن نہ چھوڑیں۔ ہم ان باتوں کے کرنے کے مکلف ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے ہر کام میں اخلاص کو شیوہ بنائیں۔ ہر کام خلوص دل سے کریں۔ اپنی ڈیوٹی بھی، اپنا فرض بھی اور اپنی ہر ذمے داری پورے خلوص کے ساتھ پوری کریں۔ ساتھ ہی اپنا قیمتی ترین وقت ضائع نہ کریں تو پھر دیکھیں کیسے آپ کی قسمت آپ کا ساتھ دیتی ہے۔

عموماً اچھی قسمت ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محنتِ شاقہ کے عادی ہوتے ہیں، جو مستقل مزاجی کے ساتھ لگے اور ڈٹے رہتے ہیں۔ جو اپنے کاموں سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ جو جنوں کی طرح کام کرتے ہیں، جو اپنے مفوّضہ کاموں کو دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔ جو کچھ قدم اٹھا کر کچھ کرگزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہتے۔ جو ہر وقت حرکت کرتے رہتے ہیں۔ جو جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ دوستو! کامیابی میں قسمت کا بے شک ہاتھ ہے، لیکن یہ قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ دعائوں کی برکت سے قسمتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ ہم سب بھی محنت، کوشش، مستقل مزاجی، امانت و دیانت، صبر و شکر اور دعائوں کے بل بوتے پر اپنی اپنی قسمتوں کو اچھا کرنے کی سعی کریں کہ انسان کو اس کی کوشش کی بقدر ہی ملتا ہے۔ یہ قسمت کا کھیل عجیب بھی ہے اور غریب بھی۔ آئیں! یہ دلچسپ کھیل کھیلتے ہیں۔