وہ جو جنگ کے بعد بھی لڑتے ہیں

محمود درویش فلسطین کے ایک معروف شاعر گزرے ہیں۔ ان کی ایک نظم میں چند جملے دل کے اندر پیوست ہو کر رہ جاتے ہیں:
”جنگ ختم ہو جائے گی اور رہنما ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گے مگر وہ بوڑھی ماں اب بھی اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرتی رہے گی۔
وہ لڑکی اب بھی اپنے محبوب شوہر کی راہ تکتی رہے گی اور وہ بچے اب بھی اپنے بہادر باپ کے لوٹ آنے کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے۔
مجھے نہیں معلوم کس نے وطن کو بیچا۔
مگر میں نے انہیں ضرور دیکھا ہے جنہوں نے اس کی قیمت چکائی۔”

یہ نظم محض شاعری نہیں، بلکہ انسانیت کی تاریخ کا وہ خاموش باب ہے جسے اکثر مورخین نظرانداز کر جاتے ہیں۔ جنگیں ختم ضرور ہو جاتی ہیں۔ توپوں کی گھن گرج خاموش ہو جاتی ہے، بارود کی بو مٹی میں دفن ہو جاتی ہے، لاشیں گن کر دفنائی جاتی ہیں اور تاریخ کے اوراق پر ایک سادہ سی سطر رقم ہوتی ہے: اس دن جنگ ختم ہوئی۔

مگر سوال یہ ہے: کیا واقعی جنگ ختم ہو جاتی ہے؟
نہیں! کیونکہ جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی، وہ ان دلوں میں جاری رہتی ہے جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے ہوں۔ یہ جنگ بندوق سے نہیں، بلکہ انتظار سے زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو نسلوں تک سلگتی رہتی ہے۔ جنگ کے فیصلے وہ کرتے ہیں جو خود کبھی جنگ کا سامنا نہیں کرتے۔

یہ جو امن معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں، اکثر وہی پہلے جنگ کے بازار کو گرم کرتے ہیں، مگر اس جنگ کی قیمت وہ نہیں چکاتے، بلکہ وہ چکاتے ہیں جو خود جنگ میں شریک نہیں ہوتے: ماں، بیوی اور بچے۔
درویش کا یہ جملہ سچائی کی گہرائی لیے ہوئے ہے:”مجھے نہیں معلوم کس نے وطن کو بیچا، لیکن میں نے ضرور دیکھا جس نے اس کی قیمت چکائی۔”

یہ قیمت وہ ماں چکاتی ہے جو کبھی بیٹے کو اسکول چھوڑتی تھی، اب قبر پر پھول لے جاتی ہے۔ وہ لڑکی چکاتی ہے جو شوہر کے نام کی مہندی لگاتی تھی، اب سیاہ کپڑوں میں لپٹی رہتی ہے۔ وہ بچے چکاتے ہیں جو باپ کے وعدہ کردہ تحفوں کا انتظار کرتے تھے، اب شہید اور مقتول کے بچے کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جنہیں عموما نہ کوئی سیاست دان اپنی تقریر میں یاد کرتا ہے، اور نہ ہی کوئی نیوز چینل ان کی آہوں کو نشر کرتا ہے۔ ان کی آواز بس کبھی درویش جیسے شاعروں کی نظموں میں سنائی دیتی ہے یا ان دلوں میں جنہوں نے سچائی کو قریب سے جھیلا ہو۔

جنگ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں رہی، بلکہ خود ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ ہے۔ یہ طاقت کے نشے، غرور، یا مفادات کی پیداوار ہوتی ہے، مگر قربانی صرف عام انسان دیتا ہے۔چاہے وہ میدانِ جنگ ہو یا میدانِ دل، زخمی ہمیشہ کمزور ہوتے ہیں۔ جب کوئی جنرل تمغے سجاتا ہے، کہیں ایک ماں کی آنکھ آنسو بہا رہی ہوتی ہے۔ جب کوئی حکمران ”امن کا انعام” وصول کرتا ہے، تو کسی گاؤں میں ایک اور قبر کھودی جا رہی ہوتی ہے۔ جنگ میں فتح کسی کے لیے جشن ہوتی ہے، تو کسی کے لیے نئے زخم کا آغاز۔جی ہاں! اصل جنگ اس دن شروع ہوتی ہے جب بندوقیں خاموش ہو جاتی ہیں، مگر دلوں کی چیخیں باقی رہ جاتی ہیں۔ جو لوگ جنگ میں شامل نہیں ہوتے، وہی سب سے زیادہ زخمی ہوتے ہیں اور پھر اْن کے یہ زخم کبھی نہیں بھرتے۔محمود درویش کی نظم پر تبصرہ نما یہ چند سطور لکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک سوال ذہن میں آیا: اگر جنگ اتنی ہی برباد کن ہے، تو پھر اسلام میں جہاد کا تصور کیوں موجود ہے؟ جواب یہ ہے کہ اسلام کا تصورِ جہاد طاقت کے اظہار یا توسیع پسندی کے لیے نہیں، بلکہ ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کے لیے ہے۔ اسلام میں جنگ آخری حل تو ہے، پہلی خواہش اور ترجیح مگر ہرگز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو ، لیکن جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو صبر کرو۔”

اور جب یہ ناگزیر ہو جائے، تو بھی اس کے اندر اخلاق، رحم اور انصاف کی سختی سے پاسداری لازم ہے، چنانچہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور غیر محارب اور جنگ سے لاتعلق افراد پر حملہ سختی سے منع ہے۔ درختوں کو کاٹنا، پانی کے ذرائع کو تباہ کرنا یا جانوروں کو نقصان پہنچانا بھی ناجائز ہے۔ اگر دشمن صلح کی پیشکش کرے، تو اسے فوراً قبول کرنے کی ہدایت ہے۔

اب ذرا غور کریں، کیا آج کے زمانے کی جنگوں میں بھی کوئی اصول باقی بچے ہیں؟ کسی قاعدے اور قانون یا معاہدے کی پاسداری کی جاتی ہے؟ آج جو جنگیں مسلط کی گئی ہیں، خاص طور پر مسلمانوں پر۔ وہ دراصل مہذب دنیا کے امن دشمن چہرے کا اصل عکس ہیں۔ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں وہ وحشیانہ جارحیت دیکھی ہے اور دیکھ رہے ہیں، جس میں نہ صرف انسان، بلکہ چرند پرند، پودے اور زمین تک انتہائی بے دردی سے روند دی گئی۔ یہ نسل کشی کی جنگیں امریکا اور مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ سو جہاں درویش کی شاعری احتجاج بن کر ابھرتی ہے، وہیں اسلام کا فلسفہ جہاد سراپا عدل اور رحمت بن کر سامنے آتا ہے۔خلاصہ یہ کہ انسانیت کا پرسکون مستقبل صرف اور صرف امن کے نظریے میں پوشیدہ ہے، نہ کہ جنگ کے اندھے جنون میں۔ کاش یہ کرہ ارض امن کا گہوارہ بن جائے اور دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو اور ساری انسانیت امن و سکون سے اپنی زندگی جئے!