ایک صحافی کے طور پر میری عادت ہے کہ پاکستان کے اہم اُردو اور انگریزی اخبارات کے ساتھ اہم عالمی اخبار بھی دیکھے اور پڑھے جائیں۔ انٹرنیٹ نے یہ آسانی پیدا کر دی ہے ورنہ صرف بڑے اخبارات ہی عالمی اخبارات منگوایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب انتیس سال قبل میں نے اُردو ڈائجسٹ سے اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز کیا تو وہاں پر پہلے دن مجھے مشہور برطانوی اخبار دی گارڈین کا ہفتہ وار میگزین دی گارڈین ویکلی دیا گیا تاکہ اس کی بعض سٹوریز کو ترجمہ کرکے ڈائجسٹ میں دیا جا سکے۔ اُردو ڈائجسٹ کے بعد میں جب روزنامہ جنگ چلا گیا تو وہاں پر ایک باقاعدہ سے انٹرنیشنل ڈیسک قائم تھا جہاں اہم امریکی اور برطانوی اخبارات آتے تھے۔ دی ٹائم لندن، ٹیلی گراف وغیرہ کے ساتھ عرب امارات کے دو مشہور انگریزی اخبار گلف نیوز اور خلیج ٹائمز بھی آیا کرتے تھے۔ ان سے خبریں اور آرٹیکلز منتخب کر کے ان کے تراجم کی تلخیص نیوز پیجز پر دیے جاتے۔ انٹرنیٹ نے یہ آسانی پیدا کردی اور ہم گھر بیٹھے امریکا کے موقر ترین اخبارات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، وال سٹریٹ جنرل وغیرہ اور برطانوی اخبار ڈی ٹائمز، گارڈین، ٹیلی گراف، ڈیلی میل وغیرہ آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ اب تو خیر اکثر اخبار اور ٹائم، نیوز ویک اور اکانومسٹ جیسے میگزین سبسکرپشن پر چلے گئے ہیں اور ان کی ماہانہ یا سالانہ سبسکرپشن دیے بغیر آپ پوری سٹوری نہیں پڑھ سکتے، تاہم کچھ نہ کچھ اب بھی مل جاتا ہے اور جگاڑ صرف ہم پاکستانی نہیں کرتے دنیا بھر میں چلتا ہے۔ ان جگاڑیوں کے طفیل اہم اخبار اور میگزین پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔
مجھے اہم انڈین اخبار اور میگزین پڑھنے بھی دلچسپی ہے۔ بطور پاکستانی صحافی انڈین پالیسیوں اور وہاں کی اندرونی سیاسی ڈائنامکس کو سمجھنا بطور ضروری ہے۔ انڈین ایکسپریس، دی ہندو جیسے اخبار اور پھر انڈیا ٹوڈے، آؤٹ لک اور فرنٹ لائن جیسے میگزین پڑھنے مفید ہیں۔ دی وائر ایک مختلف اور بہت عمدہ ویب سائٹ ہے جسے بعض انڈین صحافیوں ہی نے بنایا ہے اور وہاں پر کوشش کی جاتی ہے کہ تحقیقاتی غیرجانبدار رپورٹنگ کی جائے۔ دی وائر کی اُردو ویب سائٹ وائر اُردو بھی بہت اچھی اور معلومات افزا ہے، خاص کر بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر غیرجانبدارانہ نقد اور انڈین مسلمانوں اور دیگر اقلیتیوں کی حقیقی پوزیشن بھی جاننے کو ملتی ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران وائر پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تھی، جسے عدالتی مدد سے ناکام بنایا گیا۔ آج کل انڈین اخبار اور ویب سائٹس کھولنے کیلئے وی پی این کی ضرورت پڑتی ہے، البتہ صحافیوں کے بعض واٹس ایپ گروپس میں مہربان حضرات بعض انڈین اخباروں کی پی ڈی ایف شیئر کر دیتے ہیں۔ وائر البتہ ویسے بھی کھولی اور پڑھی جا سکتی ہے۔
گزشتہ روز مختلف انڈین اخبارات اور ویب سائٹس پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ بھارتی مسلمانوں کی بھارت میں حالت جاننے کے لیے کچھ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، صرف چند اخبارات کی سرخیاں اور خبریں ہی جھلک دکھلا دیتی ہیں۔ یہ بات البتہ سمجھنا ضروری ہے کہ بھارت ایک ملک تو ہے مگر اس کے اندر خاصی بڑی اور واضح تقسیم ہے، مختلف پاکٹس ہیں جن کی اپنی اپنی الگ الگ ڈائنامکس اور سیاست ہے۔ نارتھ انڈیا یعنی شمالی ہندوستان ساؤتھ انڈیا سے بہت مختلف ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں ہندو شدت پسندی اس طرح موجود نہیں، وہاں بی جے پی بھی کمزور ہے اور شاید اسی وجہ سے وہاں رہنے والے مسلمانوں کی صورت حال بھی خاصی بہتر اور نسبتاً محفوظ تر ہے۔ ساؤتھ انڈیا کی بڑی زبانوں میں تامل، ملیالم، تیلگو اور کنڑ وغیرہ ہیں۔ ان کے اپنے اخبارات بھی بڑے ہیں، چینل بھی اپنی زبانوں میں ہیں۔ ہندی وہاں باقاعدہ ناپسند کی جاتی ہے اور مدراس، کلکتہ، کیرالہ وغیرہ میں ہندی کی بجائے لوگ اپنی مقامی زبانیں یا پھر انگریزی بولتے ہیں۔ وہاں کے بعض صوبائی وزرا کھل کر ہندو دھرم کے خیال بھی بیان داغ دیتے ہیں اور کوئی ردعمل نہیں ہوتا۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ حیدرآباد جیسا اہم اور تاریخی مسلمان شہر تلنگانہ ریاست کا حصہ ہے جو ساؤتھ انڈیا ہی میں آتا ہے۔ نارتھ انڈیا کی صورتحال مختلف ہے، یہاں بی جے پی مضبوط ہے، ہندو شدت پسندی طاقتور ہے اور بالی وڈ فلم انڈسٹری پر انہی کا غلبہ رہا ہے۔ نارتھ انڈیا میں پنجاب، ہریانہ، ہما چل پردیش، مقبوضہ کشمیر، بھارت کا سب سے بڑا صوبہ اُترپردیش یعنی یوپی، دہلی، اتراکھنڈ، راجھستان وغیرہ شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش (ایم پی) اور بہار شاید سنٹرل ہندوستان میں آتے ہیں مگر انہیں بھی ایک طرح سے نارتھ انڈیا سمجھا جاتا ہے۔
خیر بھارتی اخبارات کی بعض خبروں کا ذکر ہو رہا تھا، کچھ دن قبل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے آئین ہند کی تمہید میں سیکولر اور سوشلسٹ الفاظ کا جائزہ لینے کی بات کی گئی۔ آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے یہ بیان دیا تھا۔ اس پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سخت تنقید کی تھی۔ تازہ ترین دھماکہ بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کے بیان نے پیدا کیا ہے۔ بھارتی نائب صدر دھنکھڑ نے28جون کو دی ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا: یہ الفاظ ایمرجنسی کے دوران شامل کیے گئے تھے جو آئین کے لیے سیاہ ترین دور تھا۔ ان الفاظ کو شامل کرنے سے ہمارے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ الفاظ ناسور ہیں جو انتشار پیدا کریں گے۔ ان کو شامل کرنا آئین کے معماروں کے ساتھ غداری ہے، یہ ہماری تہذیبی وراثت کی توہین ہے، یہ سناتن کی روح کی بے حرمتی ہے’۔ آئین کی تمہید یعنی آغاز میں کسی چیز کا آنا اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستانی آئین کی تمہید میں قرارداد مقاصد کے آنے پر بہت سے لبرل سیکولر پاکستانی حلقے چراغ پا رہے تھے کیونکہ اس طرح سے پاکستانی آئین پر قرارداد مقاصد کی اسلامی چھاپ واضح ہوگئی۔ بھارتی آئین کی تمہید میں سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ بھارت میں سیکولرازم اور نچلے محروم طبقات کے لئے کچھ نہ کچھ سوشلسٹ بنیادوں پر کئے جانے والے ریلیف کاموں کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
یہ ذہن میں رہے کہ بھارتی آئین سے اگر سیکولرازم ہٹ گیا تو پھر بی جے پی باقاعدہ طور پر بھارت کو ہندو ملک ڈیکلیئر کرا دے گی اور بھارتی مسلمانوں کے لیے مشکلات بے پناہ بڑھ جائیں گی۔ اب تصور کریں کہ آر ایس ایس تو چلو ایک شدت پسند جماعت ہے ہی لیکن اگر بھارت کا نائب صدر بھی اسی کی زبان بولے گا تو پھر بھارتی اقلیتیں کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گی؟ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ اپوزیشن کی تنقید کے باوجود بی جے پی اپنی مرضی کے تمام کام کرانے میں کامیاب رہی۔ رام مندر کی تعمیر اور نئے وقف قانون سمیت بہت کچھ غلط ہو چکا ہے، ہو رہا ہے۔ ایک اہم خبر یہ شائع ہوئی ہے کہ گجرات ہائی کورٹ نے گجرات کی ریاستی حکومت کا کہا ہے کہ وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمان تاجروں کو دکان کھولنے کی اجازت دلوائیں۔ یاد رہے کہ وڈودرا کے ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مسلمان تاجر نے دکان خریدی تھی، لیکن اسے کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اندازہ لگائیں کہ وہاں بہت سے شہروں میں یہ صورت حال بن چکی ہے کہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمان تاجر دکان خرید بھی لیں تو وہ اسے کھول کر چلا نہیں سکتے۔
مقامی آبادی، پولیس اور ریاستی انتظامیہ یہ نہیں ہونے دے رہے۔ اترپردیش میں شدت پسند بی جے پی لیڈر ادیتیا یوگی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد سے بہت سے مسائل چل رہے ہیں۔ اب خبر آئی ہے کہ اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کو اب ایک نئے تنازع کا سامنا ہے۔ اس بار تنازع کے مرکز میں کنواں ہے۔ مسجد سے متصل دھرانی وراہ کوپ کنویں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ ضلع انتظامیہ ایک سرکاری اسکیم کے تحت اس کی تجدید کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے کنویں پر مسجد کا دعوی کمزور کرنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ جگہ سرکاری زمین پر واقع ہے اور اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ مسجد کمیٹی کے دعوے اور اطلاعات کے مطابق یہ کنواں مسجد احاطے کا ایک حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کی مذہبی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ تنازع بھی بڑھے گا اور یہاں بھی مسلمانوں کو تنگ اور شکست خوردہ بنایا جائے گا۔
دوسری طرف کولکتہ سے خبر آئی کہ مرشد آباد مذہبی تشدد کے پیچھے منظم سازش کارفرما تھی۔ اس واقعے میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پایا ہے کہ مرشد آباد تشدد محض فرقہ وارانہ تصادم یا امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک بے حد منظم، منصوبہ بند اور سیاسی طور پر محرک صورت حال تھی، جہاں مذہبی پولرائزیشن، حکومت کی بے عملی اور پولیس کے جبر نے مل کر سالوں کے پُرامن ہندو مسلم بقائے باہمی کو بگاڑ دیا ہے۔ یہ اندازہ مشکل نہیں کہ جہاں جہاں پر بی جے پی کا زور چل رہا ہے وہاں وہاں پر مسلمان آبادی شدید مشکلات، عدم تحفظ اور بے سکونی کا شکار ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم جیسے لوگ برسوں سے کہہ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں پروانڈیا لابی اس کا تمسخر اڑاتی تھی اور کہتی کہ ہم لوگ انڈیا سینٹرک سوچ کے حامل ہیں۔ اب انڈیا میں اتنا سب کچھ ہورہا ہے کہ ہمیں اپنے دلائل کے دہرانے کی ضرورت ہی نہیں، صرف یہ چند خبریں ہی رکھ دینا کافی ہیں۔