بہت ساری چیزیں کامیابی کی دشمن ہیں۔ کامیابی کے حصول کے لیے ان رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ ان بیسیوں رکاوٹوں میں سے ایک اہم ترین رکاوٹ ناکامی کا خوف ہے۔ ناکامی کا خوف انسان کو آگے نہیں بڑھنے دیتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ڈرتا ہے اور انجانے خوفوں میں مبتلا رہتا ہے۔ موت کا خوف، بیماری کا خوف، گرنے کا خوف، غربت کا خوف،بڑھاپے کاخوف، چوٹ کا خوف، بے عزتی کا خوف، حادثے کا خوف، لڑائی جھگڑے کا خوف، تنقید کا خوف، فساد کا خوف… بیسیوں قسم کے خوف ہوتے ہیں جو انسان کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر انسان اپنے دل میں صرف اللہ تعالیٰ کا خوف رکھے اور باقی سب کا خوف اپنے دل سے نکال باہر کریں تو سارے ہی مسائل حل ہوجائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ناکامی ہی دراصل کامیابی کی پہلی سیڑھی شمار ہوتی ہے۔ یاد کریں ایڈیسن کو۔ ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے کے لیے مبینہ طو رپر ایک ہزار سے زائد تجربات کیے۔ سب کے سب ناکام ہوئے، لیکن ایڈیسن نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ تجربات پر تجربات کرتا رہا یہاں تک کہ ناکامیوں کی کوکھ سے کامیابی نے جنم دے دیا، وہ بلب ایجاد کرنے والا بن گیا۔ ایک مرتبہ کسی صحافی نے پوچھا کہ ”آپ نے لوگوں کو بتادیا کہ بلب کس تھیوری اور طریقۂ کار سے ایجاد ہوتا ہے؟” اس پر ایڈیسن نے جواب دیا کہ میں نے یہ بھی بتادیا ہے وہ 9سو 80طریقے کون سے ہیں جن سے بلب ایجاد نہیں ہو سکتا، لہٰذا سائنسدانوں کو ان طریقوں پر مغز ماری نہیں کرنی چاہیے۔
انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنا گول طے کرے، ہدف متعین کرے، سوچے کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ جب تک اپنی منزل متعین نہیں کرلیتا اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پہلے ہر اعتبار سے غور و فکر کرے، اپنی تعلیم کو دیکھے، اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے، حالات کو پرکھے اور یہ دیکھے کہ میرا مزاج کیا ہے؟ میری دلچسپی کے کام کون کون سے ہیں؟ میں کیا کام اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔ اپنے بڑوں سے اس حوالے سے مشورہ بھی کرے۔ استخارے اور استشارے کے بعد جو بھی کام طے ہوجائے، اس میں جُت جائے۔گہرے غور و فکر کے بعد اللہ تعالیٰ پر یہ بھروسہ کرے۔ قرآن میں ہے کہ ‘جب تم کسی کام کا پختہ عزم کرلو تو پھر اللہ تبارک وتعالیٰ پر بھروسہ کرکے یہ کام کرنے کا آغاز کردو’۔ اب پیچھے مڑکر نہ دیکھو بلکہ محنت، عزم، یقین، توجہ، کوشش اور مستقل مزاجی کے ساتھ آگے ہی بڑھتے چلے جائو۔ اصل بات یہی ہے کہ اپنی ویلیوز کو تلاش کرو اور پھر آگے چلو۔ جب مقصد متعین ہوجاتا ہے تو پھر منزل سہل ہوجاتی ہے۔ پھر جھجکنا اور شرمانا نہیں چاہیے۔ پھر ناکامیوں کے خوف سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ ناکامیاں ہی کامیابیوں کو جنم دیتی ہیں۔
کراچی میں ہمارے ایک دوست کا کاغذ کا کاروبا رہے۔ وہ کہتے ہیں: ”آج سے 21سال پہلے فوٹو اسٹیٹ کی مشین سے کام کا آغاز کیا تھا۔ پھر میں نے پرنٹنگ کی طرف توجہ کی۔ ایک مصنف سے کتاب لے کر چھاپی تو اچھا خاصا نقصان ہوا بلکہ رأس المال و سرمایہ بھی ڈوب گیا۔ اس کے بعد میں نے اس کام سے توبہ کرلی۔ پھر ہول سیل کا کام شروع کیا۔ ہول سیل پر بوتلیں فروخت کیا کرتا تھا۔ کچھ ماہ یہ کام چلا مگر پھر برے طریقے سے پٹ گیا۔ اس کے بعد میں نے سیمنٹ کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔ میں فیکٹریوں سے سیمنٹ خریدتا تھا اور ڈیلروں کو بیچ دیتا تھا۔ 6ماہ تک یہ کام چلا اور پھر رفتہ رفتہ اس میں بھی ناکامی ہونے لگی۔ حاصل یہ کہ میں نے 8مختلف قسم کے کام کیے، ہر کام میں ناکامی ہوئی۔ نوواں کام میں نے کاغذ کاشروع کیا۔ یہ کام چل پڑا اور ایسا چلا کہ سارے خسارے پورے ہوگئے، میں لکھ پتی ہوگیا۔” ان کا کہنا تھا: ”میں نے ناکامیوں سے سیکھا ہے۔ یہ جو نوواں کاروبار اچھا چلا، اس کے پیچھے 8ناکام کاموں کا تجربہ تھا۔ اگر مجھے تجربہ نہ ہوتا تو کبھی بھی میں کامیاب نہ ہوتا۔” میں نے خلاصہ نکالتے ہوئے کہا: ”اس کا مطلب ہے کامیابی کے لیے ناکامی ضروری ہے۔” انہوں نے فوراً کہا: ”ایگزیکٹلی” یقینا ایسا ہی ہے کہ ناکامیوں کے بعد ہی کہیں جاکر کامیابی ملتی ہے، لہٰذا ناکامیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ایک اور سچی داستان پڑھیے۔ کاشف نامی ایک پڑھا لکھا، مگر غریب نوجوان تھا۔ اسے کہیں نوکری اور جاب نہیں مل رہی تھی۔ یہ تھک ہارکر بیٹھ گیا۔ والدہ کے کہنے پر شام کے اوقات میں میٹرک تک کے بچوں کو گھر میں ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ بس جیسے تیسے گزر بسر ہورہی تھی۔
ایک دن کاشف کی والدہ نے اسے 30ہزار روپے دیے کہ تم ایسا کرو دھوبی کی دکان کھول لو۔ اپنا کام شروع کرو۔ اللہ برکت دیں گے۔ اس نے اللہ کا نام لے کر دھوبی کا کام اسٹارٹ کردیا۔ ایک سال بعد اس کے لانڈرنگ اور دھوبی کے بڑے گھاٹ تھے۔ جب یہ کام چل پڑا تو اس کے زرخیز ذہن میں آیا کہ کوئی دوسرا کام بھی شروع کیا جائے۔ کاشف چونکہ پڑھا لکھا تھا، لہٰذا اس نے پرنٹنگ پریس لگانے کا ارادہ کیا۔ اس میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی۔ اس نے ہمت نہ ہاری۔ پھر اس نے کپڑے کا کام شروع کیا۔ اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو سال کے بعد اس نے پراپرٹی کا کام شروع کیا۔ یہ پلاٹ خریدتا اور بیچتا تھا۔ پلاٹ خرید کر چھوٹے چھوٹے مکان بناتا اور فروخت کردیتا۔ یہ کام چل پڑا۔ یہاںتک کہ دو چار سال کے بعد اس کا شمار اپنے علاقے کے بڑے بلڈروں میں ہونے لگا۔ کاشف کا کہنا تھا کہ آج اگر میں اتنا بڑا بلڈر ہوں تو اس کے پیچھے 4سال کی بیسیوں ناکامیاں ہیں۔ ناکامیوں کی کوکھ سے ہی کامیابی نے جنم لیا ہے۔
ہماری تمام نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ نوکری کے پیچھے وقت ضائع کرنے کی بجائے کوئی چھوٹا موٹا کام کریں۔ کاروبار کو ترجیح دیں۔ اللہ نے برکت کے دس حصوں میں سے 9حصے کاروبار اور تجارت میں رکھے ہیں۔ تجارت کو پیشہ بنانے میں کسی قسم کا حجاب نہ کریں۔ رِسک لینا سیکھ لیں۔ رِسکی شخص ہی کامیاب ہوتا ہے۔ ناکامی کا خوف دل سے نکال کر باہر کریں۔ اللہ کا نام لے کر آج ہی کسی کام کو شروع کریں۔ پہلا قدم اٹھانے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی مدد شروع ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ناکامی ہی ہوگی، آج ناکامی ہوگی تو کل کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ آئو نوجوانو! مل کر اپنے دل سے ناکامی کا خوف باہر نکال پھینکیں۔ اپنے دل میں صرف اللہ کا خوف رکھیں۔ سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین رکھیں۔ یہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔