السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو غالب گمان ہے کہ آج اتوار ہے۔ غالب گمان اس لیے کہا کہ ممکن ہے کہ آپ کسی وجہ سے کسی اور دن یہ سطور پڑھ رہے ہوں، تب بھی مگر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ کے ہاتھوں میںجو یہ بچوں کا اسلام ہے اورجس کی پیشانی پر تاریخ۱۷ نومبرنقش ہے، یہ اتوار ہی کے دن شائع ہوا ہے۔
اور پھر یہ آپ قارئین کا ’’آج‘‘ ہے۔ ہمارا آج تو تادمِ تحریر ہمیشہ کی طرح آپ کے آج سے بیس پچیس دن قبل ماضی میں ہے۔ جی ہاں!آج جب ہم آپ کے درِ دل
پر دستک دینےکا ارادہ کررہے ہیں تو اکتوبر کی۱۸ تاریخ جمعے کا مبارک دن ہے۔
کیسی عجیب بات ہے ناں کہ بات کرنے والا نہیں جانتا کہ جب اُس کے مخاطب تک
اس کی بات پہنچے گی تو وہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں؟
زندہ ہوا تو آزاد بھی ہوگا یا نہیں؟
نجانے ۱۷ نومبرکو جب یہ شمارہ چھپ کر بے شمار معصوم ، سندر اورپیارے ہاتھوں میں آئے گا تو خود ہم اپنے لکھے یہ الفاظ کس حالت میں پڑھ پائیں؟ پڑھ بھی پائیں گے یا نہیں!اور یہ محض تخیلاتی بات نہیں، یہ منظر ا بھی دو ماہ قبل ہی آسمان نے دیکھا ہے کہ ایک ایسے مقام پر ہم نے اپنے ترتیب دیے بچوں کا اسلام دیکھے اور اپنی وہ دستک پڑھیں جنھیں لکھتے ہوئے ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ چھپنے کے بعد ہم کہاں پڑھنے والے ہیں!
یہ ہے تقدیر اور یہ ہیں تقدیر کے بھید!
خیریہ بھید بھری بات تو پھر کسی دن کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، آج تو بات کرتے ہیں ۱۷ نومبرکی، کیلنڈر میں جسے دیکھتے ہی ہماری نگاہوں میں پچھلے نوبرس زن سے گھوم گئے ہیں۔آج سے ٹھیک نوبرس قبل ۱۷ نومبرمنگل کے دن ہم سب کی ایک محبوب شخصیت ہم سے جدا ہوئی تھی۔
اچانک ایک خیال کے تحت ہم نے پچھلے کیلنڈر کھنگالے تو معلوم ہوا کہ ۲۰۱۵ ء کے بعد سےآج تک صرف ایک بار ۲۰۱۹ء میں اتوار کو نومبر کی سترہ تاریخ پڑی تھی یا اب ۲۰۲۴ ءمیں نومبر کی۱۷ کو اتوار آیا ہے ۔
خیرآج پورے ۹ برس گزر گئے ہیں جناب اشتیاق احمد کو ہم سے بچھڑے ہوئے۔اُس دن ملنے والی اس اندوہناک خبر کو سوچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے بس ابھی نو دن قبل کی بات ہومگر دوسری طرف ان کی جدائی کا سوچیں تو یہ نوبرس نوصدیوں پر محیط نظر آتے ہیں۔ بے شک وقت کا پرندہ کسی کے لیے نہیں رکتا، وہ ایک خاص ردھم سے اپنے پروں کی جنبش سے ماضی کو پیچھے دھکیلتا مستقبل کی سمت منزلوں پہ منزلیں تسخیر کرتا اڑتا چلا جاتا ہے۔
دھان پان سے جناب اشتیاق احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی توانا قلم نے تین نسلوں کو اخلاقی اقدار، شجاعت اور انسان دوستی کے اسرار سکھائے۔ ان کا وہ پر تاثیر اندازِ بیاں، جس سے قارئین کے دلوں میںالفت کے چراغ جل اٹھتے،آج بھی ان کی تحریروں میں اسی طرح تروتازہ ہے جیسے اسی کی دہائی میں تھا۔ ان کے کرداروں کےمثالی اخلاق، بہادری،اصول پسندی اور ایثار آج بھی نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اگرادب اطفال کو ایک بلند قلعے سے تشبیہ دی جائے توبلاشبہ اشتیاق احمد اس قلعے کے محافظ تھے، جن کی ہر تحریر ایک مستحکم دیوار کی مانند تھی، جو ہماری اخلاقی بنیادوں کو مضبوط رکھتی ہے۔ وہ ادبِ اطفال کے باغ میں ایک ایسے سدا بہار گلِ نرگس کی مانند تھے جو خزاں کے آنے کے باوجود اپنی مہک سے چمن کو معطر رکھتا ہے۔ اُن کی تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ بچوں کے کردار سازی کا ایک اہم وسیلہ تھیں۔
نوسال بیت گئے مگر ہمیںاب بھی کبھی کبھار یوں لگتا ہےجیسے ابھی کہیں سے اُن کی مخصوص آواز، اورچلیں آواز نہ سہی مخصوص اسلوب سے مزین تازہ ترین تحریر سامنے آجائے گی۔
ہمارے دین میں برسی ’’منانے‘‘ کی رسم منع ہے لیکن کسی تاریخ یا دن سے جڑی یاد کا تازہ ہوجانا اور اس مناسبت سے کچھ اچھے بول بول دینا، دعا اور ایصال ثواب کرنا تو بالکل منع نہیں ،بلکہ بہت اچھی روایت ہے۔
سترہ نومبر کی تاریخ کی مناسبت سے ہر بار کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کا اسلام میں ’’ان‘‘ کا ذکرخیر ہو۔ اُن کے لیے دعا اور ایصالِ ثواب کی قارئین سے استدعا ہو تا کہ ۱۷ نومبرکا سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے ان کی تربت میں لاکھوں کروڑوں قیمتی تحائف پہنچ جائیں۔
اس بار شمارے میں اگرچہ ان کے حوالے سے ایک ہی تحریر ہے اور وہ ہمیشہ کی طرح حضرت جی کے بہت پیارے دوست جناب پروفیسر محمد اسلم بیگ مدظلہ کی ہے لیکن یہ ایک تحریر بھی کئی تعزیتی تحریروں پر بھاری ہے۔
درخواست ہے کہ ابھی اِن سطور کو پڑھتے ہی صفحہ پلٹنے سے قبل ہمارے ممدوح کو بقدرِ توفیق ایصال ثواب ضرور کریں۔ کم ازکم درود شریف، ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر ضرورانھیں ہدیہ کریں، پھر ان کے لیے دعابھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ انھیں اپنا خاص قرب عطا فرمائے، آمین!
والسلام
مدیر مسئول