اسلام آباد:قومی اسمبلی نے مالی سال26-2025 ء کے لیے 17 ہزار 573 ارب کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے زیر صدارت اجلاس میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل ہوا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے آغاز پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل منظور کرنے کی تحاریک پیش کیں۔ فنانس بل منظور کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کر لی گئی جس کے بعد فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کر دیا گیا۔
اجلاس کے دوران فنانس بل کی منظوری ملتوی کرنے اور عوامی رائے کیلئے بھجوانے سے متعلق اپوزیشن کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی بل 2025 ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جب کہ اپوزیشن کی جانب سے اس تحریک کی مخالفت کی گئی۔
فنانس بل میں ارکان کی جانب سے ترامیم پیش کی گئیں، مبین عارف نے کہا کہ بل پر عوام کی رائے لی جائے، جتنی دیر تک عوام کی رائے نہیں آجاتی اتنی دیر تک بل کو موخر کیا جائے۔
عالیہ کامران نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں، ٹیکس عوام نے ادا کرنا ہے، عوام کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے، عالیہ کامران اور مبین عارف کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔
فنانس بل کی شق وار منظوری کے دوران سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق سخت ترامیم منظور کر لی گئیں۔ فنانس بل کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ میں گرفتاری ٹیکس کی رقم میں فوجری اور گڑبڑ شامل ہوگی، مال کی سپلائی کئے بغیر ٹیکس انوائس جاری کرنے پر ٹیکس فراڈ کے تحت گرفتاری ہوگی۔
سیلز ٹیکس میں ٹمپرنگ کرنا بھی سیلز ٹیکس فراڈ کے زمرے میں شامل ہوگا، ٹیکس انوائس میں فراڈ کو بھی سیلز ٹیکس فراڈ تصور کیا جائے گا۔ فنانس بل کے مطابق ٹیکس کے شواہد مٹانا بھی سیلز ٹیکس فراڈ کے زمرے میں شامل ہوگا، ٹیکس گوشوارے میں جان بوجھ کر غلط معلومات دینا بھی ٹیکس فراڈ تصور ہوگا۔
ٹیکس فراڈ میں ملوث کمپنی کے متعلقہ افسر کو تین نوٹس بھیجنا ہوں گے۔ فنانس بل میں ترمیم کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ کی انکوائری خفیہ نہیں ہوگی، سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث شخص اگر انکوائری میں شامل ہوگیا تو گرفتار نہیں ہوگا۔
سیلز ٹیکس فراڈ کرنے والا بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کرے تو گرفتار ہوگا، سیلز ٹیکس میں فراڈ کے شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی گئی تو گرفتاری ہوگی۔فنانس بل کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ 5 کروڑ یا اس سے زائد ہوا تو گرفتاری ہوگی، گرفتاری کیلئے ممبر آپریشنز، ممبر لیگل پر مشتمل کمیٹی کی اجازت چاہیے ہوگی۔
سیلز ٹیکس میں فراڈ افراد کو 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ فنانس بل کی شق نمبر3منظور کر لی گئی، پیٹرولیم مصنوعات پر 2.5 فیصد کاربن لیوی عائد کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔
اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق 4 پر بحث اور رائے شماری کے دوران حکومت نے کسٹمز ایکٹ 1969 ء میں مجوزہ ترامیم کثرت رائے سے منظور کروا لیں۔
وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کے حق میں 201 ووٹ آئے جبکہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود انہیں مسترد نہ کیا جا سکا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے ترامیم پر ووٹنگ کیلئے ایوان سے رائے طلب کی، حکومتی اراکین نے زور دار آواز میں ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔
اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کی گئی، اپوزیشن نے فوری طور پر ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا۔ گنتی کے بعد واضح ہوا کہ ترامیم کے حق میں 201 ووٹ حکومت کو ملے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے 57 ووٹ ڈالے گئے۔
اس طرح کسٹمز ایکٹ 1969 ء میں مجوزہ حکومتی ترامیم کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا اور شق 4 پر اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
بل کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کارگو ٹریکنگ سسٹم کی تنصیب کی جائے گی، کارگو ٹریکنگ سسٹم سامان کی درآمد برآمد ٹرانزٹ اور ترسیل کی الیکٹرانک نگرانی کرے گا، ڈیجیٹل دستاویزات کے لئے ای بلٹی سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔
بل کے مطابق سامان کی درآمد برآمد یا ترسیل میں مصروف ٹرانسپورٹ گاڑیاں ای بلٹی سے منسلک ہوں گی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں و مراعات ایکٹ سے متعلق ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی، فنانس بل میں 4اے اور 4بی کے نام سے نئی ترامیم شامل ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ترمیم کی حمایت کی گئی، جس کے مطابق وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت اراکین کے برابر تنخواہ لیں گے، تنخواہوں اور مراعات ایکٹ 1975 ء میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔
فنانس بل2025 شق نمبر 3 منظور کرلی گئی، پیٹرولیم مصنوعات پر 2 روپے 50 پیسے کاربن لیوی عائد کرنے کی منظوری دی گئی۔ ایوان نے سولر پینل پر سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد کرنے کی بھی منظوری دے دی، اس کے علاوہ فنانس بل 2025 شق 6 اور 7 بھی کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔
فنانس بل 2025میں شامل انکم ٹیکس آرڈیننس2001میں ترمیم منظور جب کہ اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کرلی گئیں۔ فنانس بل کے مطابق 6 لاکھ تک تنخواہ دار ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جب کہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ تک تنخواہ لینے والے افرادایک فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔
دوسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر ایک فیصد انکم ٹیکس 6 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔ بل کے مطابق 12 لاکھ سے 22 لاکھ تک سالانہ تنخواہ لینے والے 6 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 11 فیصد ٹیکس دینگے۔
تیسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر11 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 12 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہوگا، 22 لاکھ سے 32 لاکھ تک سالانہ تنخواہ پر 1 لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 23 فیصد انکم ٹیکس عاید ہو گا۔ چوتھے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 23 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 22 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر 3 لاکھ 46 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 30 فیصد انکم ٹیکس ہوگا۔ پانچویں سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 30 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 32 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔
بل کے مطابق 41 لاکھ سے اوپر سالانہ تنخواہ لینے والوں کو 6 لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 35 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، چھٹے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 35 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 41 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا، سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ پنشن پر انکم ٹیکس عائد ہوگا۔
سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ پنشن وصولی پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی، سالانہ ایک کروڑ تک پینشن وصول کرنے والوں کو ٹیکس استثنیٰ ہوگا۔پاکستان بار کونسل سمیت صوبائی بار کونسلز، فوجی فائونڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فائونڈیشن یونیورسٹی کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی۔
اس کے علاوہ شوکت خانم، ایدھی فائونڈیشن، الشفا ٹرسٹ، شفا ٹرسٹ آئی ہسپتال کو بھی ٹیکس چھوٹ دے دی گئی، فارمن کرسچن کالج، لمز، غلام اسحاق خان یونیورسٹی کو بھی ٹیکس استثنیٰ حاصل ہوگیا۔
انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت تخفیف غربت فنڈ، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، نینشل انڈومنٹ اسکالر شپ، ایف بی آر فائونڈیشن، پاکستان زرعی ریسرچ کونسل، آڈٹ اوورسائٹ بورڈ کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ سابق صدور اوران کی بیوائوں کی پنشن میں بھی ٹیکس استثنیٰ اور سپریم کورٹ دیامیر بھاشا و مہمند ڈیم فنڈ کو بھی انکم ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔
دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ منظوری کے بعدخطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے تمام مطالبات مانے اس لیے بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بی آئی ایس پی میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ہم خوشی کے ساتھ اس بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہر بجٹ میں بی آئی ایس پی پروگرام میں کمی کی کوشش کی، جب سے وزیراعظم شہباز شریف آئے ہر بجٹ میں بی آئی ایس پی میں اضافہ ہوا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تنخواہ داروں کیلئے ٹیکس میں کمی کی گئی، ہمارے کہنے پر حکومت سولر ٹیکس میں 50 فیصد کمی لائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے اعتراض کے بعد ایف بی آر قوانین میں تبدیلی لائی گئی، ہم وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر خزانہ کے شکرگزار ہیں، ہماری بات مانی گئی اس لیے بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اجلاس میں اپوزیشن کے رہنماؤں نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے عوام کا بجٹ نہیں ہے ،کسان مر گیا ہے ،کسان نے تصور کر لیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کسان دشمن حکومت ہے عوام پر پٹرول بم لیوی کی صورت میں گرایا گیا ہے یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔